مشرق وسطیٰ: سیاسی لڑائی کے تباہ کُن فرقہ وارانہ نتائج
11 اپریل 2015ریاض اور تہران دونوں مذہب اسلام ہی کی دو شاخوں کے پیروکار ہیں لیکن علاقائی تنازعات میں دونوں اپنے اپنے فرقوں کے لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین دشمنی کی بنیادیں سیاسی ہیں لیکن یہ استعمال فرقہ واریت کو کرتے ہیں، جو ایک خطرناک کھیل ہے۔
مختلف عسکری گروپ بھی جا بہ جا فرقہ وارانہ زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر جہادی گروپ ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے شدت پسندوں کی طرف سے اکثر و بیشتر شیعہ اور دیگر مذہبی فرقوں کی مذمت کی جاتی ہے، لیکن یہی متنازعہ مذہبی زبان سرکاری بیانات میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔ سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف اپنی جارحیت کو ’’بدی اور اچھائی‘‘ کے مابین جنگ قرار دیا ہے۔ اس کے جواب میں ایران نے سعودی فضائی حملوں کو ’’نسل کُشی‘‘ کہا ہے۔
یمن کے برعکس شام میں ایران اور حزب اللہ اسد حکومت کے خلاف برسر پیکار باغیوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں جب کہ وہاں سعودی حکومت باغیوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دونوں ملک مذہب کو اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اصل جنگ سلامتی، اقتدار، گورننس جبکہ تہران اور ریاض کے درمیان ذاتی دشمنی کی ہے۔ لندن میں بین الاقوامی امور کے تھنک ٹینک چیٹہم ہاؤس کے مشرق وسطی اور شمالی افریقی پروگرام کی نائب سربراہ جین کیننائن مونٹ کہتی ہیں، ’’یہاں کوئی ابدی تنازعہ نہیں ہے لیکن بعض اوقات سیاسی اور اقتصادی تنازعات میں مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
مسلمان دنیا کے تیل پیدا کرنے والے دو طاقت ور ملکوں کے مابین رقابت صرف چند عشرے پرانی ہے اور اس میں بھی اضافہ عراق پر امریکی حملے کے بعد ہوا ہے۔ امریکی حملے کے بعد علاقائی توازن میں گڑ بڑ پیدا ہوئی اور عراق تہران کے زیر اثر جاتا ہوا دکھائی دیا۔ مبصرین کے مطابق ایسے میں علاقائی تنازعے کو ظاہری فرقہ وارانہ تنازعے کے طور پر با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ فیلو فنت حداد کہتے ہیں کہ سطحی طور پر فرقہ وارانہ نظر آنے والے تنازعات کے پیچھے اثرو رسوخ، اپنے اتحادیوں کی سرحدیں اور سپلائی روٹس کی جنگ ہے۔ اپنے تنگ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’ علاقائی جغرافیائی سیاست میں فرقہ واریت کی بات کی جاتی ہے لیکن یہ فرقہ وارانہ شناخت کا معاملہ نہیں ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر تاریخ یا موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ اتحاد وہاں ہی بنا ہے جہاں مفادات مشترک تھے۔ مثال کے طور پر مصر اور قطر دونوں یمن میں سعودی اتحاد کا حصہ ہیں لیکن لیبیا کے معاملے میں یا علاقائی سیاست میں یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ قطر کے ساتھ ساتھ ترکی بھی سعودی عرب کا ساتھ دے رہا ہے لیکن شامی اپوزیشن پر اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے تینوں ملک ایک دوسرے کے متوازی کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب تجزیہ کار اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اگر فرقہ واریت کو سیاسی دشمنی کی ضمنی پیداوار بھی سمجھا جائے تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس مڈل ایسٹ پروگرام کے سینیئر ایسو سی ایٹ فریڈرک ویری کہتے ہیں، ’’شیعہ سنی تقسیم حقیقی ہے اور موجود بھی ہے۔ لیکن سیاسی اداکاروں کی طرف سے اس تقسیم کا فائدہ اٹھانا انتہائی خطرناک ہے اور پھر عراق کی طرح تشدد کو کنٹرول کرنا بھی آسان نہیں رہے گا۔ عراق فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے۔‘‘