مشرق وسطیٰ میں امن اور جنوبی ایشیائی مسلمانوں کا ممکنہ کردار
3 جون 2010غزہ کے محصورین کے لئے امدادی جہاز پراسرائیلی کارروائی کے بعد اسرائیل کے خلاف دنیا بھرمیں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے درمیان نئی دہلی میں اسرائیل کے سفیر مارک سوفر نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حماس جس دن اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنا نا چھوڑ دے گا اور اسرئیل کے خلاف حالت جنگ کو ختم کردے گا ہم اسی لمحے ناکہ بندی اٹھالیں گے ''اس وقت سب سے ضروری ہے کہ ہم اسرائیلی بچوں‘ فلسطینی بچوں کے مستقبل کو دھیان میں رکھتے ہوئے قدم اٹھائیں۔ ہمیں سب سے پہلے ان کی طرف دھیان دینا چاہئےجوامن چاہتے ہیں نہ کہ حماس یا ایسی تنظیموں کی طرف جن کا اصل مقصد امن کوسبوتاژ کرنا ہے۔
جب ہم نے مارک سوفر سے پوچھا کہ آخر ان کے ذہن میں مسئلہ فلسطین کا کیا حل ہے تو انہوں نے کہا ''ایک آزاد مملکت اسرائیل ایک آزاد فلسطینی ریاست کے ساتھ ساتھ ہو۔ دونوں امن او رخیرسگالی کے ساتھ رہیں۔ سرحدوں کے سلسلے میں اتفاق رائے ہو۔ مسائل کے حل پراتفاق رائے ہو۔ یروشلم اور پناہ گزینوں جیسے بڑے مسئلوں پر اتفاق رائے ہو۔ ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن ان پر بات چیت کرنا ضروری ہے۔
لیکن کیا فلسطینی اسر ائیل کی طرف سے پیش کردہ حل کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے؟ جب ہم نے یہ سوال اسرائیلی سفیر سے پوچھا تو انہوں نے کہا'' ابوماذن اور محمود عباس اور ان کی فلسطینی اتھارٹی جیسے روشن خیال فلسطینی اس کےلئے تیار ہیں۔ اسرائیل کا ماننا ہے کہ دو ریاست کا قیام ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے کیونکہ مشرق وسطی کے مسئلےکے فوجی حل کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ہم صرف بات چیت کے ذریعہ ہی مسئلے کوحل کرسکتے ہیں اور یہ بھی جان لینا چاہئے کہ نہ تو اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹایا جاسکتا اور نہ ہی فلسطینیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کے خاطر کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرنا ہی پڑے گا۔
جب ہم نے اسرائیلی سفیر سے پوچھا کہ امدادی جہاز پر اسرائیل کی حالیہ کارروائی سے کیا امن مساعی کو دھکا نہیں پہنچا ہے ؟ تو مارک سوفر نے کہا ''ہمیں امید ہے کہ روشن خیال فلسطینی اور روشن خیال عالمی برادری معاملے کو جلد از جلد دوبارہ اپنی راہ پر لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن سب سے ضروری یہ ہے کہ ہمیں خود کو امن کے لئے وقف کرنا چاہئے اور حماس‘ ایران اور امن کے دشمنوں کو امن کو تباہ کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔''
اسرائیلی سفیر نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ انہیں آگے آنا چاہئے او رمشرق وسطی میں امن کے قےام کے لئے ہاتھ بٹانا چاہئے۔ ''میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں سے بات کرتا رہتا ہوں‘ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ میری باتوں سے اتفاق کریں یا اختلاف لیکن میرے دل میں مسلمانوں کے لئے بہت احترام ہے۔ مغربی ایشیا میں مذہبوں کا تصادم نہیں ہے ۔ اسلام امن کا مذہب ہے۔ اسلام خیرسگالی کا مذہب ہے۔ یہ لوگوں کو جوڑنے کا مذہب ہے۔ لیکن بعض اوقات انتہاپسند اس کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے اسامہ بن لادن اورالقاعدہ نے کیا۔ ایسے لوگ قاتل اوراسلام کے دشمن ہیں۔ میرے خیال میں یہ اسلام پسند نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے قرآنی آیات کی غلط تشریح کرتے ہیں''
رپورٹ : افتخار گیلانی
ادارت : عدنان اسحاق