مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرت کی بحالی کی کوششیں
6 مارچ 2010امريکی حکومت کو اميد ہے کہ اتوار سات مارچ کو دونوں فريق بالواسطہ بات چيت پر رضامند ہونے کا اعلان کرديں گے۔ امريکی حکومت نے فلسطينی خود مختار انتظاميہ کے صدر محمود عباس اور اسرائيل کے مابين بالواسطہ مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کيا ہے اسے عرب ليگ نے بھی سراہا ہے۔
مذاکرات کے فلسطينی وفد کے قائد سائب ايرکات نے اس طرف توجہ دلائی کہ بالواسطہ مذاکرات کے لئے صرف چار ماہ کی مدت دی جائے گی: ٫٫عرب وزرائے خارجہ نے، فلسطينی صدر ابو ماذن کی طرف سے پيش کردہ وضاحت کی روشنی ميں اسے درست سمجھا ہے کہ امريکی تجويز کو اس اميد پر چار ماہ کا موقع ديا جائے کہ اس عرصے کے دوران امريکی دونوں فريقوں کے مابين اختلافات کو دور کراسکيں گے‘‘۔
اسرائيلی وزيراعظم بن يامين نيتن ياہو نے اميد ظاہر کی ہے کہ ايک سال قبل اُن کے حکومت سنبھالنے کے بعد پہلی بار فلسطينی صدر محمود عباس کے ساتھ اُن کے مذاکرات ہو سکيں گے: ’’ہمارے اور فلسطينی خود مختار انتظاميہ کے مابين بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے لئے موزوں حالات پيدا ہورہے ہيں۔ بنيادی طور پر دنيا يہ بخوبی سمجھتی ہے کہ ميری حکومت مذاکرات چاہتی ہے اور اُس نے ان مذاکرات کو ممکن بنانے کے لئے ايسے اقدامات بھی کئے ہيں جو آسان نہيں تھے‘‘۔
اس کے فوراً بعد حماس کے سابق وزير اعظم اسمعيل ہانيا نے کہا کہ مشرقی يرو شلم اور مغربی اردن ميں اسرائيلی قابضانہ پاليسی کی وجہ سے، اسرائيل کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات سے انکارکرديا جا ئے گا: ’’ حماس حکومت نے فلسطينی قوم سے عہد کيا ہے کہ مسجد اقصی کے اردگرد، ہيبرون، بيت لحم اور دوسرے مقامات پر جو کچھ ہورہا ہے، اُس کے پيش نظر اسرائيل کے ساتھ براہ راست يا بالواسطہ،کسی بھی طرح کے مذاکرات کی قومی يا سياسی حمايت نہيں کی جائے گی‘‘۔
آٹھ مارچ کو امريکی نائب صدر جو بائڈن اسرائيل پہنچ رہے ہيں۔ وہ، صدر اوباما کے حکومت سنبھالنے کے بعد علاقے کا دورہ کرنے والے پہلے اعلی امريکی سياستدان ہيں۔ بائڈن تنازعے ميں ملوث فريقين سے بات چيت کرنا چاہتے ہيں۔ انہوں نے اپنے تين روزہ دورے ميں ايک رات فلسطينی خود مختار انتظاميہ کے علاقے ميں بسر کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی ليکن امريکی سيکريٹ سروس نے اسے پورا کرنے سے انکار کرديا ہے۔
رپورٹ کليمينس فيرينکو ٹے/ شہاب احمد صدیقی
ادارت کشور مصطفیٰ