مشرق وسطیٰ کے لیے اوباما کا نیا وژن، عالمی ردعمل
20 مئی 2011اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی قیمت پر ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے، اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ آزاد فلسطین ریاست کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما کے نئے تصور کے اطلاق سے اسرائیل کا دفاعی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔
امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کے لیے واشنگٹن حکومت کی نئی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے فلسیطین اور اسرائیل کی سرحدیں 1967ء کی جنگ سے پہلے کی بنیاد پر ہونی چاہییں۔
اگرچہ اسرائیلی وزیراعظم نے باراک اوباما کی تقریر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم دوسری طرف مصری، فلسطینی اور برطانوی رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کے لیے واشنگٹن حکومت کی نئی پالیسی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ عرب دنیا میں عوامی انقلاب کے بعد وہاں کی عوام کی توقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے اور اس لیے اب ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ انہوں نے عالمی برداری پر زور دیا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کے عوام کی امنگوں کوحقیقت کا رنگ دینے کے لیے کوششوں کو دوگنا کرنا ہو گا۔
ولیم ہیگ نے مزید کہا کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کا دو ریاستی حل خطے میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے اوباما کے اس مؤقف کو بھی سراہا کہ فلسطین اور اسرائیل کی سرحدوں کا تعین 1967ء کی جنگ سے پہلے والی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینی رہنماؤں کو تعطل شدہ براہ راست مذاکرات کے سلسلے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
لیبیا کے رہنما معمر القذافی کے بارے میں دیے گئے امریکی صدر باراک اوباما کے بیان طرابلس حکومت نے کہا ہے کہ اوباما ’التباسات‘ کا شکار ہیں،’ اوباما اس جھوٹ پر یقین رکھتے ہیں، جو ان کی حکومت اور میڈیا نے پھیلایا ہے۔ اوباما کو یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے کہ معمر القذافی لیبیا میں رہیں یا اسے چھوڑ دیں۔‘ لیبیا کی حکومت کے ترجمان موسی ابراہیم نے اوباما کی تقریر کے بعد کہا ہے کہ لیبیا کے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ اوباما نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ قذافی کا اقتدار سے الگ ہونا ناگزیر ہو چکا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین