1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ کے لیے اوباما کا نیا وژن، عالمی ردعمل

20 مئی 2011

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کے لیے نئی امریکی پالیسی پر جہاں عالمی رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے وہیں کئی ایک نے اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/11K5A
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوتصویر: AP

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی قیمت پر ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے، اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ آزاد فلسطین ریاست کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما کے نئے تصور کے اطلاق سے اسرائیل کا دفاعی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔

امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کے لیے واشنگٹن حکومت کی نئی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے فلسیطین اور اسرائیل کی سرحدیں 1967ء کی جنگ سے پہلے کی بنیاد پر ہونی چاہییں۔

اگرچہ اسرائیلی وزیراعظم نے باراک اوباما کی تقریر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم دوسری طرف مصری، فلسطینی اور برطانوی رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کے لیے واشنگٹن حکومت کی نئی پالیسی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ عرب دنیا میں عوامی انقلاب کے بعد وہاں کی عوام کی توقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے اور اس لیے اب ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ انہوں نے عالمی برداری پر زور دیا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کے عوام کی امنگوں کوحقیقت کا رنگ دینے کے لیے کوششوں کو دوگنا کرنا ہو گا۔

محمود عباس، باراک اوباما اور نیتن یاہو
تصویر: picture-alliance/dpa

ولیم ہیگ نے مزید کہا کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کا دو ریاستی حل خطے میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے اوباما کے اس مؤقف کو بھی سراہا کہ فلسطین اور اسرائیل کی سرحدوں کا تعین 1967ء کی جنگ سے پہلے والی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینی رہنماؤں کو تعطل شدہ براہ راست مذاکرات کے سلسلے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

لیبیا کے رہنما معمر القذافی کے بارے میں دیے گئے امریکی صدر باراک اوباما کے بیان طرابلس حکومت نے کہا ہے کہ اوباما ’التباسات‘ کا شکار ہیں،’ اوباما اس جھوٹ پر یقین رکھتے ہیں، جو ان کی حکومت اور میڈیا نے پھیلایا ہے۔ اوباما کو یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے کہ معمر القذافی لیبیا میں رہیں یا اسے چھوڑ دیں۔‘ لیبیا کی حکومت کے ترجمان موسی ابراہیم نے اوباما کی تقریر کے بعد کہا ہے کہ لیبیا کے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ اوباما نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ قذافی کا اقتدار سے الگ ہونا ناگزیر ہو چکا ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں