’مشرق وُسطیٰ میں امن کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں‘، اوباما
22 ستمبر 2011اوباما نے کہا کہ اس سلسلے میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اب جبکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ساکھ اور اُس کا اثر و رسوخ داؤ پر لگے ہوئے ہیں، اوباما فلسطینیوں کو اس بات کا قائل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کی درخواست نہ دیں۔ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اِس سے اسرائیل ناراض ہو گا اور دوسرے یہ کہ اگر ووٹ کی نوبت آئی تو امریکہ فلسطینیوں کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی رکنیت کو ناکام بنا دے گا۔
ایک سال پہلے اوباما نے جنرل اسمبلی کے اجلاس ہی میں یہ کہا تھا کہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا وقت آ چکا ہے۔ اِس سال کے اجلاس سے اپنے خطاب میں بھی اوباما نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کا بھی قیام بدستور اُن کا نصب العین ہے:’’لیکن سوال اُس نصب العین کا نہیں ہے، جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اُس نصب العین تک پہنچنے کے لیے ہم کون سے راستے کا انتخاب کریں۔ اور مجھے یقین ہے کہ عشروں سے چلے آ رہے اِس تنازعے کے حل کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔‘‘
اوباما نے مزید کہا:’’امن بیانات سے اور اقوام متحدہ میں قراردادوں سے قائم نہیں ہوگا۔ اگر یہ کام اتنا ہی آسان ہوتا تو اب تک ہو بھی چکا ہوتا۔ بالآخر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو ہی ایک دوسرے کے پاس پاس زندگی گزارنی ہے۔ اُنہیں ہی اُن معاملات میں کسی تصفیے پر پہنچنا ہے، جن پر اُن کے درمیان اختلاف ہے، سرحدوں پر، سلامتی کے موضوع پر، مہاجرین کے مسئلے پر اور یروشلم کے سوال پر۔‘‘
درحقیقت امریکہ کی ثالثی میں گزشتہ بیس سال سے ہونے والے مذاکرات کی ناکامی ہی کی وجہ سے فلسطینی صدر محمود عباس ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے سلسلے میں اقوام متحدہ سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کی یہ کوششیں امریکہ کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہیں کیونکہ اُسے اپنے حلیف اسرائیل کو عالمی رائے عامہ کی مخالفانہ لہر سے بچانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
اپنے اِس خطاب کے بعد اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کی اور اُنہیں امریکہ کی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ اِس موقع پر نیتن یاہو نے کہا کہ اقوام متحدہ میں فلسطینی کوششیں بہر صورت ناکامی سے دوچار ہوں گی۔ اوباما بعد ازاں فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملے۔ 45 منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات کی زیادہ تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں تاہم وائٹ ہاؤس کے مطابق اوباما نے عباس پر یہ ضرور واضح کیا کہ اُن کی حکومت اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کی فلسطینی درخواست کے خلاف ہے اور سلامتی کونسل میں اُسے ویٹو کرے گی۔ اس سے پہلے بتایا گیا تھا کہ اوباما عباس سے یہ اپیل کریں گے کہ وہ جمعہ 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو اِس عالمی ادارے میں مکمل رکنیت کی درخواست پیش نہ کریں۔
اپنے اس خطاب میں اوباما نے عرب دُنیا میں جمہوری تبدیلی کے لیے جاری تحریکوں کی حمایت کی، شامی صدر بشار الاسد کے خلاف اقوام متحدہ کی جانب سے مزید پابندیوں کے لیے زور دیا اور ایران اور شمالی کوریا سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگراموں کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری کی جانب اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ورنہ اُنہیں زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ دُنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ تنہا ہو جائیں گے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ