مشرقی جرمنی میں غیر ملکی بہت کم لیکن اجانب دشمنی عروج پر
26 مارچ 2017'فرینکفرٹ اَن ڈیئر اوڈر‘ نامی شہر کی خاتون سماجی کارکن الزبتھ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’مجھے کہنا پڑے گا کہ آفس میں میرے ساتھی تارکین وطن کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں رکھتے اور مَیں اس موضوع پر اُن کے ساتھ گفتگو میں خود کو ہمیشہ اکیلا پاتی ہوں۔‘‘ الزبتھ نے اپنا پورا نام بتانے سے گریز کیا۔
برلن سے مشرق کی طرف قریب سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس سابق کمیونسٹ شہر میں غیر ملکی شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں تاہم مشرقی جرمنی کے زیادہ تر دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی مہاجرین کو شک و شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سن 2015 میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جانب سے لاکھوں پناہ گزینوں کو جرمنی میں داخلے کی اجازت کے بعد سے دائیں بازو کی سوچ کی حامل اور مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی یا ’متبادل برائے جرمنی‘ کو یہاں پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔
یہ جماعت چانسلر میرکل کی جرمنی میں مہاجرین کے آزادانہ داخلے کی کڑی ناقد ہے۔ سن 2014 کے ریاستی انتخابات میں جب ابھی جرمنی میں مہاجرین کا بحران نہیں آیا تھا، اے ایف ڈی کو برانڈن برگ کی ریاستی اسمبلی میں 11 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ ’فرینکفرٹ اَن ڈیئر اوڈر‘ بھی اسی ریاست میں واقع ہے۔
اس شہر کے پولیس کمشنر ولکو موئلر کا، جو اے ایف ڈی کی مقامی شاخ کے سربراہ بھی ہیں، کہنا ہے کہ اس علاقے کے عوام میں اُن کی جماعت کی حمایت کے لیے موافقت پائی جاتی ہے۔ اے ایف ڈی کے لیے اس علاقے میں ساز گار آب و ہوا کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پارٹی کے نائب چیئرمین الیگزانڈر گاؤلَنڈ رواں سال 24 ستمبر کو ہونے والے عام انتخابات میں یہاں سے قومی نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
مشرقی جرمنی کے دیگر حصوں کی طرح ’فرینکفرٹ اَن ڈیئر اوڈر‘ کی آبادی بھی روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے۔ ستاسی ہزار کی آبادی والے اس شہر میں اب صرف اٹھاون ہزار افراد رہ گئے ہیں۔ برلن کی فری یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر ہایو فُنکے کا کہنا ہے کہ نسلی تعصب مشرقی جرمنی کا ساختیاتی مسئلہ ہے۔ تاہم اے ایف ڈی کے موئلر مشرقی جرمنی میں کسی بھی نسل پرستانہ نقطہٴ نظر کی موجودگی کو مسترد کرتے ہیں۔ موئلر کی پارٹی کا دفتر شہر کے وسط میں واقع ہے۔ جرمنی میں سیاسی جماعت ’دی لنکے‘ کے ’ گیئرڈ‘ نامی ایک ووٹر کا اے ایف ڈی کی حمایت کرتے ہوئے کہنا تھا:’’وہ نازیوں کی واپسی نہیں چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ہٹلر دوبارہ آئے۔‘‘
تاہم مہاجرین کے لیے کام کرنے والے ایک امدادی ادارے کے رکن تھوماس کلیہن کا کہنا ہے کہ جو لوگ مہاجرین کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ نسل پرست ہونے سے انکاری ہیں،’’وہ اِن تارکینِ وطن سے کبھی ملے تک نہیں۔‘‘