مشرقی غوطہ کے شہری علاقہ چھوڑنے سے انکاری
1 مارچ 2018مشرقی غوطہ کے علاقے میں کی جانے والی اس فضائی بمباری میں اب نسبتاﹰ کمی واقع ہو چکی ہے جس کے سبب محض 10 دن کے دوران 600 عام شہری ہلاک ہوئے۔ یہ کمی روس کی جانب سے اس اعلان کے بعد سے دیکھی گئی ہے جس کے مطابق روزانہ پانچ گھنٹے جنگ بندی پر عمل کیا جائے گا۔ تاہم شامی حکومت کی طرف سے اس محصور شدہ علاقے کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی پیشکش پر کوئی ایک بھی شہری اس علاقے سے نکلنے پر تیار نہیں ہوا۔ شامی حکومت کی طرف سے اس مقصد کے لیے بدھ کے روز سے بسیں بھی فراہم کر دی گئیں۔ تاہم شدید بمباری کے شکار چار لاکھ کی آبادی والے اس علاقے کے شہریوں نے اس سہولت کو استعمال نہیں کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس کے رپورٹرز نے وافدین کی اُس چیک پوائنٹ پر کوئی بھی ہلچل نہیں دیکھی، جو مشرقی غوطہ کے علاقے میں پھنسے افراد کو وہاں سے نکلنے کے لیے بطور محفوظ راستہ فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی غوطہ کا علاقہ 2012ء سے باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔ اس چیک پوائنٹ پر موجود ایک فوجی افسر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ ہیومینیٹیرین کوریڈور ان تمام افراد کے لیے کھُلا ہے جو مادر وطن کو لوٹنا چاہتے ہیں مگر یہ دوسرا دن اور کوئی بھی شخص نہیں آیا۔‘‘
دوسری طرف امریکا نے دمشق حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ بدھ 28 فروری کی شام اس کی فورسز نے مشرقی غوطہ میں کارروائی کی۔ تاہم روس نے کہا ہے کہ شامی باغی پرتشدد کارروائیوں سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ باغیوں کے زیر قبضہ دمشق کے اس نواحی علاقے میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد محصور ہے، جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتوں کی کوششوں کے باوجود شام میں قیام امن کے لیے ایک عارضی سمجھوتے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔