1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی يورپی رياستوں ميں سماجی ترقی، مغرب ہجرت ميں کمی کا سبب

عاصم سليم29 جون 2016

يورپی يونين کی رکن مشرقی يورپی رياستوں ميں سماجی سطح پر ہونے والی ترقی کے نتيجے ميں امکان ہے کہ مستقبل ميں ان ملکوں کے شہریوں کی جانب سے بہتر زندگی کی تلاش ميں مغربی يورپ ہجرت کے رجحان ميں کمی واقع ہو جائے۔

https://p.dw.com/p/1JFP5
تصویر: DW/S. Bogdanic

اٹھائيس رکنی يورپی يونين کی رکن مشرقی يورپی رياستوں ميں معيار زندگی اور انسانی حقوق کی صورتحال ميں بہتری ديکھنے ميں آئی ہے۔ يہ انکشاف مختلف ممالک ميں سماجی ترقی پر نظر رکھنے والی ايک غير سرکاری تنظيم ’سوشل پروگريس امپيريٹیوَ‘ کے سالانہ ’سوشل پروگريس انڈيکس‘ ميں کيا گيا، جو انتيس جون کے روز برطانوی دارالحکومت لندن سے جاری کيا گيا۔

يہ سالانہ انڈيکس ايک ايسے وقت پر جاری کيا گيا، جب برطانيہ ميں پولش اور مسلمان رہنماؤں نے نسلی بنيادوں پر امتيازی سلوک اور نفرت پر مبنی پر تشدد واقعات کے حوالے سے اپنی تشويش کا اظہار کيا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے ريفرنڈم ميں برطانوی عوام نے يورپی يونين سے اخراج يا ’بريگزٹ‘ کے حق ميں فيصلہ کيا، جس کے بعد ايسے واقعات ميں اضافہ نوٹ کيا گيا ہے۔ اميگريشن کا معاملہ ريفرنڈم ميں کليدی اہميت کا حامل تھا۔

’سوشل پروگريس انڈيکس‘ تشکيل دينے والے ادارے کے سربراہ مائيکل گرين کا البتہ کہنا ہے کہ اس انڈيکس کے نتائج يعنی مشرقی يورپی رياستوں ميں سماجی ترقی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بہتر زندگی اور ملازمتوں کی تلاش کرنے والے مشرقی يورپی مہاجرين کی تعداد ميں طويل المدتی بنيادوں پرکمی رونما ہو گی۔ گرين نے کہا، ’’برطانيہ ميں يہ بحث اور يہ قياس آرائی کی جا رہی تھی کہ مشرقی يورپ سے اميگريشن موجودہ رفتار سے يا مزيد تيزی کے ساتھ جاری رہے گی ليکن ان ملکوں ميں معيار زندگی ميں بہتری اور سماجی سطح پر ترقی کے سبب اميگريشن کے فوائد اور کشش ميں کمی ہو گی۔‘‘ ’سوشل پروگريس امپيريٹیوَ‘ کے سربراہ کا مزيد کہنا تھا کہ اس کا مطلب يہی ہے کہ طويل المدتی بنيادوں پر زيادہ تر لوگ اپنے ملکوں ميں ہی رہنے کو فوقيت ديں گے۔

مشرقی يورپ ميں سماجی ترقی، لوگوں کے ليے ہجرت کو کم پُر کشش بنا دے گی
مشرقی يورپ ميں سماجی ترقی، لوگوں کے ليے ہجرت کو کم پُر کشش بنا دے گیتصویر: Getty Images/AFP

مائيکل گرين نے بتايا کہ جنوبی يورپ ميں ساٹھ کی دہائی ميں بھی کچھ ايسا ہی ديکھنے ميں آيا تھا، جب خطے کے غريب ممالک سے لوگ ملازمت کے ليے امير ممالک ہجرت کيا کرتے تھے تاہم متعلقہ غريب ممالک ميں اقتصادی ترقی کے ساتھ ہی اس رجحان ميں کمی ہو گئی تھی۔

’سوشل پروگريس انڈيکس‘ ميں در اصل يہ ديکھا جاتا ہے کہ ممالک اور حکومتيں اپنے عوام کی سماجی اور ماحولياتی ضروريات پوری کرنے کے ليے کتنے وسائل بروئے کار لاتے ہيں۔ بدھ انتيس جون کو جاری کردہ انڈيکس ميں فن لينڈ سر فہرست ملک رہا، جبکہ 133 ممالک کی فہرست ميں آخری نمبر پر وسطی افريقی جمہوريہ رہا۔ نتائج کے مطابق سلووينيہ، چيک جمہوريہ، اسٹونيا، پولينڈ، کروشيا، سلوواکيہ، لیتھوينيا، ہنگری اور ليٹويا ميں سماجی ترقی کی رفتار تيز رہی، جس سبب ان ملکوں کی درجہ بندی اسی گروپ ميں کر دی گئی ہے، جس ميں امريکا، جرمنی، فرانس اور اٹلی موجود ہيں۔

’سوشل پروگريس انڈيکس‘ کے نتائج کے مطابق مشرقی يورپی رياستوں کے ليے يورپی بلاک کی رکنيت مفيد ثابت ہوئی ہے۔