مشرقی یوکرائن میں متنازعہ رائے شماری، تبصرہ
3 نومبر 2014یوکرائن کے مشرقی حصے میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کی نام نہاد ’عوامی جمہوریاؤں‘ کے خود ساختہ قائدین نے ایک ہفتہ قبل یوکرائن میں منعقدہ اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شُدہ پارلیمانی انتخابات کو یہ کہہ کر رَد کر دیا تھا کہ ملک کے عوام جنگ کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں اور محض اس وجہ سے بھی یہ انتخابات جائز قرار نہیں دیے جا سکتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اب انہی قائدین نے ڈونیٹسک اور لوہانسک کے بحران زدہ علاقوں میں کلاشنکوف کے سائے میں اور ماسکو حکومت کی پشت پناہی سے اپنے انتخابات منعقد کروا دیے ہیں۔
اس رائے شماری پر ہر طرح سے علیحدگی پسندوں کی چھاپ تھی اور کامیاب امیدواروں کے نام گویا پہلے سے طے تھے۔ ان نام نہاد پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں یوکرائن کی حامی جماعتوں اور امیدواروں کو حصہ لینے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ ڈونیٹسک میں تو روس نواز کمیونسٹوں کو بھی امیدواروں کے طور پر انتخابات میں شرکت کی اجازت نہ مل سکی حالانکہ اُس علاقے کو اُن کا گڑھ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ڈونیسٹک میں دو ہی گروپ ’ڈونیٹسک ری پبلک‘ اور ’فری ڈونباس‘ انتخابات میں شریک ہوئے اور اُن دونوں کا ایک ہی مقصد ہے، یوکرائن کو تقسیم کرنا۔
دیکھا جائے تو مشرقی یوکرائن کے ان علاقوں میں منعقدہ انتخابات میں کوئی حریف امیدوار تھا ہی نہیں، دونوں جانب علیحدگی پسند ہی تھے اور عوام کے پاس سوائے اُنہی میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔ یہ وہ علیحدگی پسند تھے، جنہوں نے چند ہی مہینے پہلے روسی حمایت سے راتوں رات ان علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ اب ان متنازعہ انتخابات کی مدد سے وہ اپنے اب تک کے اقدامات کو ایک طرح سے جائز اور قانونی حیثیت دینے کی کوشش میں ہیں حالانکہ یہ انتخابات محض ایک دھوکے اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔
لاکھوں لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کر ہی نہ سکے۔ اُنہیں یا تو گھر بدر کر دیا گیا تھا یا وہ جھڑپوں سے تنگ آ کر فرار ہو گئے تھے چنانچہ اس وجہ سے بھی انتخابی نتائج کو اِس خطّے کے سیاسی حالات کا عکاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کوئی باقاعدہ ووٹر لسٹیں بھی موجود نہیں تھیں۔ ایسے میں ایک سے زیادہ ووٹ ڈالنا بڑی آسانی سے ممکن تھا۔ دھاندلی کا مزید موقع انٹرنیٹ کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں نے فراہم کیا، جن کی جانچ پڑتال ممکن ہی نہیں تھی۔
ڈونیٹسک اور لوہانسک میں باقی رہ جانے والے شہری درحقیقت علیحدگی پسندوں کے ساتھ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر وہ فرار ہو کر کہیں اور نہیں جانا چاہتے یا جا نہیں سکتے تو پھر اُن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کچھ لوگ تو اس لیے ووٹ ڈالنے گئے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے سامنے اَشیائے خوراک تقسیم کی جا رہی تھیں۔ اس خطّے کے زیادہ تر لوگ خوف اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ ڈاکٹروں، اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو کہا گیا تھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ بھی اُنہیں تنخواہیں ملتی رہیں تو اُنہیں نئے قائدین کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا ہو گا۔ اس کے علاوہ علیحدگی پسندوں نے اس متنازعہ رائے شماری سے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر لوگ ووٹ ڈالنے نہ گئے تو اُنہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگرچہ بین الاقوامی سطح پر ان انتخابات کی مذمت جاری ہے تاہم اس سے خطّے کے حالات میں کوئی تبدیلی متوقع نہیں ہے کیونکہ علیحدگی پسندوں کو روس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ماسکو حکومت اور علیحدگی پسند اس طرح سے امن عمل کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کر رہے ہیں۔ یہ متنازعہ رائے شماری مِنسک میں طے ہونے والے اُس معاہدے سے رُوگردانی کے مترادف ہے، جو علیحدگی پسندوں نے ابھی دو مہینے پہلے سفید روس کے دارالحکومت میں روس اور یورپی یونین کے نمائندوں کی موجودگی میں کییف حکومت کے ساتھ طے کیا تھا۔ نہ تو علیحدگی پسند اور نہ ہی ماسکو حکومت طے شُدہ معاہدے کی پاسداری کر رہی ہے۔ اُلٹا مشرقی یوکرائن کے مختلف علاقوں کو یوکرائن سے الگ کرنے کا کام تسلسل سے جاری ہے۔ مِنسک کا امن عمل اب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے اور یورپ میں ہتھیاروں کی طاقت اور نام نہاد انتخابات کے ذریعے نئی سرحدیں وجود میں لائی جا رہی ہیں۔