'مشعل اگلی نسل کو منتقل کر رہا ہوں'، امریکی صدر جوبائیڈن
25 جولائی 2024نومبرمیں ہونے والے صدارتی انتخابات سے اپنی دست برداری کے اعلان کے بعد امریکی عوام سے پہلی مرتبہ خطاب کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ قیادت کی مشعل نوجوان آوازوں تک منتقل کرنے کا وقت آگیا ہے۔
اوول آفس سے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں اکیاسی سالہ عمر رسیدہ صدر نے کہا کہ جمہوریت کا دفاع داو پر لگا ہوا ہے، جو کسی بھی عہدے سے زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا،"میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مشعل کو نئی نسل کو منتقل کردیا جائے۔ یہی ہماری قوم کو متحد کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔"
امریکہ: بائیڈن صدارتی دوڑ سے دستبردار اور کملا ہیرس کی حمایت فیصلہ
امریکی الیکشن: ٹرمپ نے ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی قبول کر لی
تقریباً پچاس سال کا سیاسی سفر طے کرچکے جو بائیڈن نے کہا،"میں اس آفس کی تعظیم کرتا ہوں لیکن اس سے زیادہ مجھے میرے ملک سے محبت ہے۔" حالانکہ،" انہیں امریکی عوام کے لیے کام کرکے طاقت اور خوشی ملتی ہے۔"
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی سب سے بہترین بات یہی ہے کہ یہاں بادشاہ یا آمر حکمرانی نہیں کررہے ہیں۔ یہاں عوام کی حکمرانی ہے۔
انہوں نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا،"تاریخ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ کا آئیڈیا آپ کے ہاتھ میں ہے۔"
کملا ہیرس کی تعریف
صدر جو بائیڈن نے اپنی "لائق اور قابل" نائب صدر 59 سالہ کملا ہیرس کی تعریف کی، جو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار نامزد ہونے والی ہیں۔
خیال رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک مباحثے میں تباہ کن کارکردگی کے بعد ان پر صدارت کی دوڑ سے الگ ہوجانے کے لیے دباو بڑھ گیا تھا۔ان کی عمر اور ذہنی صحت کے حوالے سے بھی کئی طرح کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے۔
حالانکہ ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ صرف خدا ہی انہیں انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کے لیے راضی کر سکتا ہے۔ بہر حال اتوار کے روز انہوں نے امیدواری سے دست بردار ہوجانے کا اعلان کیا۔
خطاب کے دوران جو بائیڈن نے کہا کہ وہ صدارت کی باقی چھ ماہ کی مدت میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔
ان کی صدارت کی مدت 20 جنوری 2025 مکمل ہو گی۔ جس وقت وہ اپنی مدت صدارت مکمل کر رہے ہوں گے تو وہ امریکہ کی تاریخ کے معمر ترین صدر ہوں گے۔ اس وقت ان کی عمر 82 برس ہو چکی ہوگی۔
دریں اثنا ریپبلیکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بائیڈن کی تقریر پر حسب عادت طنز کرتے ہوئے کہا،"یہ تقریر بہت بری اور بمشکل قابل فہم تھی۔"
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)