’مصر اسلام پسندوں کے خوابوں کا قبرستان‘
19 اگست 2013قاہرہ کی سڑکوں پر مصری فوج کی جانب اخوان المسلمون کو بے دردی سے روندا گیا، ان کے منتخب صدر کو زبردستی منصب سے برطرف کر دیا گیا۔ اس صورتحال میں مصر کو عرب اسپرنگ کا قبرستان قرار دیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا میں مصر کو سیاسی او رثقافتی میدان میں ایک مثالی ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن گزشتہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے واقعات نے بیرون ملک ایک الگ ہی تصویر پیش کی ہے۔ مصر میں اس وقت شناخت کی جنگ جاری ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک جیسے کہ شام، یمن، لیبیا اور عراق اپنی بقاء کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
مصر میں بیداری کی لہر نے حسنی مبارک کے تیس سالہ اقتدار کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے جنم لیا تھا۔ حسنی مبارک کے بعد ملک کی باگ ڈور اخوان المسلمون کے ہاتھوں میں آگئی۔ 80 سال قبل اپنے قیام کے بعد سے ہی اس تنظیم کو حکومتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں اس جماعت نے کامیابی حاصل کی لیکن ایک سال کے دوران ہی اس جماعت نے خود کو تباہ کر دیا۔ ایسا بھی کہا گیا کہ معزول کیے جانے والے صدر محمد مرسی نے ملک کی خستہ معیشت کو مستحکم کرنے یا عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپنی ساری توانائی ریاستی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں لگا دی۔
تیونس کے تجزیہ نگار جمیل العرفاوی کے بقول’’ میں اس تیزی سےاسلام پسندوں کے زوال پر شدید حیران ہوں۔ مجھے امید تھی کہ اخوان المسلمون ترکی کی تقلید کرتے ہوئے ایک طویل عرصے تک برسراقتدار رہے گی‘‘۔ مصر میں فوج کی پرتشدد کارروائیوں اور ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد اخوان المسلمون کو یہ خوف ہو سکتا ہے کہ وہ تاریک دور میں واپس جا سکتی ہے۔ مصر میں آخری مرتبہ 1981ء میں صدر انورالسادات کے قتل کے بعد ہنگامی حالت نافذ کی گئی تھی اور یہ تیس سالوں تک نافذ رہی تھی۔
محمد مرسی اور ان کے حامیوں نے دوران اقتدار یہ ثابت کیا کہ وہ نہ تو ملک کی دیگر اسلامی طاقتوں اور نہ ہی سیکیولر حلقوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے دور میں مصر مزید تقسیم دکھائی دے رہا تھا۔ ایسی صورتحال تو اس وقت بھی نہیں تھی جب 1953ء میں یہ ملک جمہوریہ بنا تھا۔
کیمرج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر جورج جوف کہتے ہیں’’ انہیں(اخوان) بالکل بھی علم نہیں تھا کہ جمہوری سیاسی نظام کس طرح سے کام کرتا ہے۔ اسے حیرت انگیز نا اہلی کہتے ہیں‘‘۔
2011ء میں عرب خطے میں بیداری کی تحریک میں اخوان المسلمون اور اس طرح کے دیگر اسلامی گروپ بھی شریک تھے۔ متعدد مبصرین کے مطابق مصر میں رونما ہونے والے واقعات صرف مقامی سطح پر ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں اس تنظیم کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہیں۔ ماہر فواز گیرگس کے بقول اخوان نے سیاسی خود کشی کر لی ہے اور انہیں اپنی ساکھ دوبارہ سے بحال کرنے میں صدیاں لگیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ہونے والے نقصانات اندازوں سےکہیں زیادہ ہے۔’’ ان حالات کا اثر تیونس اور اردن پر بھی پڑے گا۔اس کے علاوہ غزہ میں برسراقتدار حماس بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی‘‘۔