مصر میں بغاوت سے فوج کو پہنچنے والے فوائد
5 مئی 201426 مئی کو مصر کے صدارتی انتخابات میں فیلڈ مارشل اور سابق آرمی چیف عبدالفتح السیسی کی واضح فتح بظاہر ایک رسمی سی بات لگتی ہے تاہم پس پردہ، مشرق وسطی کی اس سب سے بڑی فوج نے رفتہ رفتہ اور ایک طویل عرصے بعد اپنا پرانا غلبا واپس حاصل کر لیا ہے۔ اس کا اندازہ اقتصادی سطح پر بھی لگایا جا سکتا ہے. گزشتہ سال جولائی میں اُس وقت کے اسلام پسند صدر محمد مُرسی کی معذولی کے بعد مصر کے جرنیلوں نے کئی ارب ڈالر کے پروجیکٹس اپنے نام کر لیے۔ بہت سے سرمایہ کار اب سیدھا مصری فوج کی طرف رُخ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ ملک کی اصل طاقت فوج ہی ہے اور تمام معاملات اُسی کے کنٹرول میں ہیں۔
خلیجی ممالک اربوں ڈالر کا بہاؤ
سیاسی طور پر مصر کی صورتحال جتنی بھی غیر مستحکم نظر آئے، اقتصادی لحاظ سے اس ملک میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جس کا فائدہ سب سے زیادہ فوج کو پہنچ رہا ہے۔ قاہرہ حکومت نے ابھی پچھلے مہینوں کے دوران فوج کو متعدد تعمیراتی پروجیکٹس کا ٹھیکا دیا ہے۔ گزشتہ نومبر میں عبوری صدر عدلی المنصور نے ایک فرمان جاری کیا تھا جس کے مطابق حکومت کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ بغیر ٹینڈر نوٹس کے بڑے پروجیکسٹس کے ٹھیکے کسی بھی بڑے ادارے یا کمپنی کو دے سکتی ہے۔ اس کا فائدہ سب سے زیادہ فوجی کمپنیوں کو پہنچا۔ تاہم فوج کو اس سے بھی زیادہ فائدہ غیر ملکی سرمایہ کاری سے پہنچ رہا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم مشرق وسطیٰ کے امور سے متعلق ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر شانا مارشل کہتی ہیں،" خلیجی ممالک کے حکمرانوں نے مصری فوج کے ساتھ بہت سی ڈیلز اس لیے طے کی ہیں کہ وہ فوج کو مضبوط تر بنانا چاہتے ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ مصری فوج اپنا اثرورسوخ اور طاقت برقرار رکھے" ۔
مرسی کی غلطیوں سے فوج فائدہ اُٹھا رہی ہے
عرب ممالک، خاص طور سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے مصری فوج کی پشت پناہی کا ایک بڑا مقصد اخوان المسلمون کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ اسلام پسند محمد مرسی کا دورِ صدارت، جو خود اسلام پسندوں کی تنظیم اخوان المسلمون سے تعلق رکھتے تھے، خلیجی ریاستوں کے لیے عدم اطمینان اور غیر یقینی کی کیفیت کا سبب بنا رہا۔ خلیجی ممالک کے حکمران اخوان المسلمون کے جمہوریت اور اسلام کو ایک ساتھ لے کر چلنے کے نظریے کو اپنی آمریت کے لیے خطرہ اور آمرانہ طرز حکومت پر حملہ تصور کرتے تھے۔
پاستا سے خام تیل تک
مصر کی کُل اقتصادی حجم کا کتنا فیصد فوج کے ہاتھ میں ہے، یہ ایک متنازعہ موضوع ہے۔ اس بارے میں لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق یہ پانچ سے لے کر ساٹھ فیصد تک ہو سکتا ہے تاہم ایک بات تو یقینی ہے، وہ یہ کہ مصری فوج ہر شعبہ زندگی میں پوری طرح سے کارفرما ہے۔ پاستا بنانے والی کمپنیوں سے لے کر فرنیچر سازی کے اداروں، ٹیلی وژن بنانے والی کمپنیوں اور خام تیل کے کاروبار تک، ہر طرح کے بزنس پر فوج چھائی ہوئی ہے۔ بنیادی سماجی ڈھانچے سے متعلق تعمیراتی پروجیکٹس میں فوج کا کلیدی کردار ہے۔ مصری فوج کے اپنے ہسپتال ہیں، بحیرہء احمر پر واقع سیاحتی مقامات سے لے کر زراعتی شعبے میں فوج کی بھرپور شمولیت ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران پُرتعیش زندگی گزار سکتے ہیں کیونکہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بہت منافع بخش کمائی کے ذرائع میسر ہیں۔ مصر کے ایک معروف صحافی اور ماہر اقتصادیات شریف ساسا کہتے ہیں،" صدارتی عہدے کے امیدوار السیسی کو فوج کے اندر کس حد تک حمایت حاصل ہے، یہ امر غیر واضح ہے تاہم اس لیے فوج کے ممکنہ ناقدین کو کسی نا کسی شعبے میں روزگار فراہم کرنا نہایت ضروری ہے" ۔