مصر میں سیاسی تبدیلی:تہران واشنگٹن کی کشیدگی میں اضافہ
16 فروری 2011عرب دنیا خاص طور سے مشرق وسطیٰ میں عوامی احتجاج اور مظاہروں کے اثرات سیاسی تبدیلیوں کا جس حد تک موجب بن رہے ہیں، یہ امر امریکہ اور ایران دونوں کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
ایران اور امریکہ روایتی طور پر ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ بین الاقوامی منظر نامے پر ان دونوں کے مابین سیاسی رسہ کشی اور سٹریٹیجک پالیسیوں کے ضمن میں مقابلہ ہمیشہ سے سخت رہا ہے۔ ایران مصر میں حُسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کو مشرق وسطیٰ کے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کو لگنے والی ایک کاری ضرب سمجھ رہا ہے۔ امریکہ کے لیے مصر میں عوامی احتجاج سے اُٹھنے والی اتنی طاقتور تحریک سے، جس نے 30 سالہ مبارک دور کے خاتمے میں کامیابی حاصل کی، ایران میں بھی اسی نوعیت کے عوامی مظاہروں کو ہوا دینے کا یہ ایک سنہری موقع ہے۔
تجزیہ نگاروں میں مصر کی سیاسی فضا میں تبدیلی کے بارے میں دو مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ کچھ کے خیال میں ایران مصر میں حکومت مخالف مظاہروں کے تانے بانے 1979 کے اسلامی انقلاب ایران سے جوڑ رہا ہے جبکہ واشنگٹن حکومت اسے عوام میں جمہوری نظام کی طرف رغبت میں اضافے کا رنگ دے کر پیش کر رہی ہے۔ امریکہ میں قائم قومی ایرانی امریکی کونسل کے صدر تریتا پارسی کا کہنا ہے۔ ’’ہمیں ابھی امریکہ کی طرف سے مزید سخت بیانات سننے کو ملیں گے۔ اس کا مقصد ایران کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کرنا ہے کیونکہ تہران حکومت مصر کے سیاسی واقعات کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ساکھ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دونوں علاقے میں اپنی اپنی دھاک بٹھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے سیاسی نظام میں بُری طرح سے ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ ایران حیران کُن حد تک خود کو امریکہ کا ہم پلہ حریف بنا کر پیش کر رہا ہے۔‘‘
تریتا پارسی، جن کی قومی ایرانی امریکی کونسل واشنگٹن انتظامیہ کی مشاورت بھی کرتی ہے، کا ماننا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ایک اہم ساتھی اور علاقے میں امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والے ملک کی حیثیت سے ایک اہم ستون تھا۔ وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے امریکہ میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ ایران اس ساری صورتحال کو نہ صرف امریکہ کی شکست بلکہ اپنی جیت سمجھ رہا ہے۔
تریتا پارسی نے کہا کہ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں اور احتجاج کی نئی لہر نے امریکہ کو ایک نیا موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ ایران پر جوابی وار کرے۔
اُدھر امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایران سے متعلق پالیسی کی سابقہ مشیر Suzzane Maloney، جو اب Brookings Institution سے منسلک ہیں، نے کہا ہے کہ کم ازکم فی الوقت یہی لگ رہا ہے کہ ایران کچھ وقت کے لیے مشرق وسطیٰ کے خطے میں امریکہ مخالف جذبات بھڑکانے کے لیے بنیاد بنا لے گا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں غیر عرب شیعہ ملک ایران نے عراق، لبنان،اور فلسطینی علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ خاصا بڑھا لیا ہے اور جیسے جیسے یمن اور بحرین میں مظاہروں کا سلسلہ آگے بڑھے گا، ویسے ویسے ان ممالک میں ایران کا اثر بھی بڑھے گا۔ مصر کے بارے میں سوزن میلونی کا خیال ہے کہ وہاں بھی امریکہ کو اس امر کا یقین نہیں کہ آیا قاہرہ میں نئی حکومت واشنگٹن کے امن کے مقاصد کا مکمل ساتھ دے گی۔
تحریر: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک