مصر کا بحران، عالمی لیڈر پریشان
31 جنوری 2011فِن لینڈ کے وزیر خارجہ الیگزینڈر اسٹب نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ آج شام یورپی یونین کے اجلاس میں مصر اور تیونس سے متعلق پالیسی پر بحث کی جائے گی، ’’عرب دنیا میں انتہائی اہم، بڑے اور تاریخی واقعات رونما ہونے جا رہے ہیں۔ 'جِن' بوتل سے باہر نکل چکا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کوئی اس کو واپس قید کر سکے گا یا نہیں۔‘‘
برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا بی بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں یا امریکی صدر باراک اوباما یہ نہیں کہتے کہ مصر پر کسے حکومت کرنی چاہیے۔ ہمیں صرف یہ کہنا چاہیے کہ وہاں جبر کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو اس کا نتیجہ نہ صرف مصر بلکہ ساری دنیا کے لیے خطر ناک ہو گا۔‘‘
جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کا ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا، ’’ہم نے موجودہ صدر حُسنی مبارک کو شہری حقوق اور آزادی رائے کا احترام کرنےاور کسی بھی صورت میں طاقت کا ستعمال نہ کرنے کوکہا ہے۔ طاقت کے استعمال سے صرف انتہا پسندوں کو مدد ملے گی۔ ہمیں کسی کو بھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ آپ اپنے عہدے پر رہیں یا استعفیٰ دے دیں۔ ‘‘
مشرق وُسطیٰ میں امن کے سفیر اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے یروشلم سے اسکائی نیوز کو بتایا، ’’ تبدیلی نظر آ رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے اور ہم اس سے کس طرح نمٹیں گے؟ ضروری یہ ہے کہ مغربی حکومتیں، امریکہ اور یورپی یونین مل کر کوئی حکمت عملی اپنائیں تاکہ ہم محض تبصرے نہ کریں بلکہ اپنے اتحادیوں کی اس صورتحال میں مدد بھی کریں۔ میں نے کئی برس پہلے کہا تھا کہ عرب خطہ تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تبدیلی کس سمت میں رونما ہو رہی ہے۔ اگر یہ تبدیلی معاشی اور سیاسی ہے تو یہ معاشرے کو اکیسویں صدی میں لا سکتی ہے اور اگر یہ تبدیلی مذہبی رجعت پسندی کی طرف ہے تو یہ ہم نہیں چاہتے۔ ‘‘
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: افسر اعوان