مصر کی سیاسی تاریخ کا ایک نازک لمحہ
1 فروری 2011نیوی پلے نے ایک بیان میں کہا کہ انہیں مصر کے حالیہ بحران کے دوران 300 افراد کے مارے جانے کی غیر مصدقہ خبریں ملی ہیں۔ نیوی پلے نے مصری حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس نازک وقت میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ نیوی پلے نے پولیس اور فوج کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے باز رہنے کو کہا ہے۔ نیوی پلے کے بقول’گزشتہ آٹھ روز سے جاری احتجاج اور مظاہروں کے دوران 300 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں، تین ہزار سے زائد مظاہرین کے زخمی ہونے اور سینکڑوں کی گرفتاریوں کی اطلاعات مل رہی ہیں‘۔ جبکہ نیوی پلے کی ایک ترجمان نے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار غیر سرکاری اداروں نے دیے ہیں۔
دریں اثناء یورپی یونین کی خارجہ امور کے شعبے کی نگران کیتھرین ایشٹن نے اپنے بیان میں کہا ’ میرے خیال میں یہ امرنہایت ضروری ہے کہ یورپی یونین اس وقت اور مستقبل میں بھی مصر کی مکمل حمایت کے لئے تیار رہے‘۔
ادھر جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا ہے کہ جرمنی اس سلسلے میں کسی ایک فریق کا ساتھی نہیں بننا چاہتا بلکہ جمہوری طریقہ کار کا ساتھ دے گا۔ ویسٹر ویلے کے بقول ’جو لوگ اس وقت اپنی آزادی کی خاطر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، ان کے پاس یہ ایک نادر موقع ہے اپنے مطالبات منوانے کا‘۔
تاہم ویسٹر ویلے نے کہا ہے کہ جرمنی کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ مصر کے موجودہ بحران کا فائدہ مسلم انتہا پسند اُٹھائیں۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے سبب سے بڑے حلیف ملک مصر کا سیاسی بحران تل ابیب حکومت کے لئے لمحہء فکریہ بنتا جا رہا ہے۔ اُدھر ترک وزیر اعظم نے کہا ہے کہ حُسنی مبارک کو اپنے عوام کی بات مان لینی چاہئے۔
مصری شہر اسکندریہ میں بھی آج ایک بڑی ریلی کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اُدھر تمام اپوزیشن جماعتیں نو منتخب حکومت کے ساتھ اصلاحات سے متعلق مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کے بارے میں صلاح ومشورہ کر رہی ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق تین اپوزیشن پارٹیوں نے کہا ہے کہ نائب صدر عُمر سلیمان کے ساتھ بات چیت کے امکانات پر غور کیا جا رہا ہے۔ عُمر سلیمان نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مکالمت شروع کرنے کا عندیہ گزشتہ شب ایک بیان میں دیا تھا۔
تاہم یہ امر ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت مرکزی اپوزیشن پارٹی ’اخوان المسلمون‘ کو بھی مذاکرات میں شامل کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔
اُدھر اپوزیشن کے مابین اس بارے میں اختلافات کی نشاندہی ہو رہی ہے کہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے لئے کس جماعت کو مقرر کیا جائے گا۔ رواں ہفتے کے اوائل میں ’اخوان المسلمون‘ سمیت چند سیاسی گروپوں نے نوبل امن انعام یافتہ محمد البرادعی کو فوج اور دیگر جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے لئے مقرر کیا تھا۔ تاہم البرادعی کی شخصیت مصر میں کافی حد تک متنازعہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ البرادعی نے طویل عرصہ ملک سے باہر گزارا ہے اور اس دوران وہ جوہری توانائی کے عالمی ادارے IAEA کے سربراہ بھی رہ چُکے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی