مصری ملکہ کے مجسمے پرایک بار پھر تنازعہ
25 جنوری 2011تین ہزار تین سو برس پرانے مصری ملکہ کے اس مجسمےکی واپسی کی درخواست کے فوراﹰ بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا یہ درخواست مصری حکومت کی جانب سے با ضابطہ مطالبہ ہے یا پھر یہ صرف مصرکی اعٰلی کونسل برائے آثار قدیمہ کی جانب سے کی جانے والی درخواست ہے۔
جرمن حکام کے مطابق مصری ملکہ کے اس نیم مجسمے کی واپسی کے مطالبے کے لیے حاصل ہونے والے خط پر صرف محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ اور نائب وزیر ثقافت ذاھی حواس کے دستخط ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا بھی کہنا ہےکہ چونکہ اس خط پر مصری وزیراعظم کے دستخط نہیں ہیں اس لیے یہ خط غیر سرکاری مانا جائے گا۔ تاہم ذاھی حواس کا اصرار ہے کہ اس خط پر مصر کے وزیر اعظم احمد نظیف نے بھی دستخط کیے ہیں۔
مصری ملکہ نیفر تیتی کا یہ مجسمہ اس وقت برلن کے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے، جسے دیکھنے ہر سال لاکھوں لوگ آتے ہیں۔ جرمن سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ مجسمہ باقاعدہ قانونی طور پر سن 1913 میں جرمنی نے حاصل کیا تھا اور یہ اتنا نازک ہے کہ اسے اس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ جبکہ مصری حکام اس اصرار کے ساتھ کہ جرمنی نے یہ مجسمہ دھوکہ دہی سے حاصل کیا ہے، مسلسل اس کی واپسی کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔
نیفرتیتی فراعین مصر کے 18ویں شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہیں نہ صرف ان کی خوبصورتی کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت حاصل تھی بلکہ نفیر تیتی کو ان کے دور کی ایک غیر معمولی طاقت رکھنے والی خاتون سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ تاریخ میں ملکہ نیفز تیتی کو ان کے شوہر یا فرعون وقت اخناتن سے زیادہ شہرت کا حامل پایا گیا ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: عدنان اسحاق