مطلق العنان حکومتیں 'کمزور' ہو رہی ہیں، جو بائیڈن
30 مارچ 2023امریکی صدر جو بائیڈن نے 29 مارچ بدھ کے روز جمہوریت کے تعلق سے اہتمام کردہ اپنی دوسری سربراہی کانفرنس کا آغاز کیا، جو بڑی حد تک عالمی رہنماؤں کے ساتھ ایک ورچؤل ملاقات ہے۔
بھارتی جمہوریت خطرے میں ہے، راہول گاندھی
اس دو روزہ سربراہی اجلاس کے لیے تقریباً 121 رہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا، جس کی ابتدا صدر بائیڈن نے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے قدرے مخالفانہ رویے کی وجہ سے اپنے اتحادیوں کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کو بحال کرنے کے لیے کی تھی۔
جمہوریت کی ايک اور آواز دبا دی گئی، عبدالطیف آفریدی قتل
ان کی انتظامیہ میٹنگوں میں مضبوط اتحاد پر زور دیتی رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس بات کی کوشاں ہے کہ جو ممالک آمریت کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں ان میں معمولی اصلاحات کی جائیں اور جمہوری قدروں کو مضبوط کیا جائے۔
برلن: جمہوریت حامیوں کا ایرانی سفارت خانے پر مظاہرہ، متعدد زخمی
بائیڈن نے اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا، ''میرے خیال سے یہ ہمارے دور کا ایک واضح چیلنج ہے اور ہم آج فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی جمہوریتیں کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہو رہی ہیں۔ دنیا کی آمریتیں مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہو رہی ہیں۔''
چین اور مغربی جمہوریتوں میں مسابقتی عمل بڑھتا ہوا
امریکہ کے بعض اتحادی ممالک، جہاں رہنماؤں نے زیادہ آمرانہ رویے کا مظاہرہ کیا ہے، انہیں کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت نہیں دی گئی، جیسے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن اور ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربان، یہ دونوں ممالک نیٹو کے رکن ہیں اس کے باوجود انہیں مدعو نہیں کیا گیا۔
جمہوری اصلاحات پر زور
سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں میں اسرائیل اور بھارت امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں، جن پر حال ہی میں واشنگٹن کی جانب سے تنقید بھی کی گئی ہے۔
اس ہفتے کے اوائل میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالوں کے بعد متنازعہ عدالتی اصلاحات کو روک دیا۔ ناقدین کا الزام ہے کہ ان کی حکومت مجوزہ تبدیلیوں سے اسرائیل کی عدلیہ کو کمزور کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
نیتن یاہو نے سربراہی اجلاس میں کہا کہ امریکہ اسرائیل اتحاد ''غیر متزلزل'' ہے اور بائیڈن کو ''40 برس پرانا اپنا دوست'' قرار دیا۔
اس موقع پر اسرائیلی رہنما نے وعدہ کیا کہ اسرائیل ''مشرق وسطیٰ کے قلب میں آزادی اور مشترکہ خوشحالی کی علامت کے طور پر ایک قابل فخر، مضبوط اور متحرک جمہوریت تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔''
دوسری جانب یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے بھارت کو روس اور امریکہ دونوں کی طرف سے بار بار سفارتی اور تجارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے اسی دن اس سربراہی اجلاس میں شرکت کی، جس دن روس نے بھارت کو ''تیل کی سپلائی میں خاطر خواہ اضافہ'' کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔
بھارت میں اسی ہفتے انتخابی مہم کی ایک تقریر کے دوران حزب اختلاف کے سرکردہ سیاست دان راہول گاندھی کو مودی کی توہین کرنے کا مجرم قرار دیا گیا اور ان کی پارلیمان کی رکنیت ختم کر دی گئی۔
سربراہی اجلاس کے شریک میزبانوں نے کیا کہا؟
سربراہی اجلاس کے پہلے ایڈیشن میں امریکہ پر زیادہ توجہ کے لیے اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، اس لیے اس بار کانفرنس کی میزبانی میں دیگر ممالک کو بھی شریک کیا گیا۔ اس سال، ان رہنماؤں کا تعلق جنوبی کوریا، زیمبیا، کوسٹاریکا اور نیدرلینڈ سے ہے۔
جو بائیڈن اور جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ''حکمرانوں کی رضامندی پر مبنی شفاف، جوابدہ طرز حکمرانی کو مضبوط بنانا ہمارے وقت کا بنیادی تقاضا ہے۔''
کینیا کے صدر ولیم روٹو نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے لیے جمہوریت کی تعمیر بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ''پائیدار ترقی کے لیے
یہ ہمارا راستہ ہے۔''
جمہوریت سے متعلق بائیڈن کی پہلی سربراہی کانفرنس کے بعد انسانی حقوق کے علم برداروں نے اس بات پر تنقید بھی کی ہے کہ اس کانفرنس میں شریک ممالک نے اپنی جمہوریتوں کو بہتر بنانے کی جانب بہت کم پیش رفت کی۔
چین اور روس کی اجلاس پر تنقید
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ یہ سربراہی اجلاس ''تصادم کو بڑھاوا دیتا ہے'' اور ''جمہوریت کے نام پر تقسیم کو مزید ہوا دے گا۔'' واشنگٹن نے تائیوان کو اس اجلاس میں مدعو کیا تھا، تاہم چین کو نہیں۔
ادھر روس کے سفیر اناتولی انتونوف نے امریکہ پر منافقت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ خود ''نسل پرستی، بندوق کے تشدد، بدعنوانی اور سماجی عدم مساوات'' جیسے مسائل سے گھرا ہوا ہے۔
انتونوف نے کہا: ''ہم نے عراق، لیبیا اور افغانستان میں امریکی جمہوریت کو زبردستی برآمد کرنے کی کوششوں کے تباہ کن نتائج بھی دیکھے ہیں۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)