مظاہرین نے تحریر اسکوائر چھوڑنے سے انکار کر دیا
12 فروری 2011حسنی مبارک نے 30 برس بعد اقتدار چھوڑنے کا اعلان جمعہ کی شام کیا، جو مصر میں اٹھارہ روز تک جاری رہنے والے عوامی احتجاج کے بعد سامنے آیا۔ اقتدار اس وقت اعلیٰ عسکری کونسل کے ہاتھ میں ہے۔
تاہم احتجاج کا مرکز بنے رہنے والے تحریر اسکوائر پر جمع بیشتر افراد نے یہ کہتے ہوئے گھروں کو لوٹنے سے انکار کیا ہے کہ جب تک اصلاحات کے لیے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، وہ وہاں سے نہیں ہِلیں گے۔
اُدھر ہفتہ کو دِن نکلتے ہی فوج نے تحریر اسکوائر پر کھڑی رکاوٹیں اٹھانے کا کام بھی شروع کر دیا جبکہ اسکوائر کا ایک حصہ ٹریفک کے لیے بھی کھول دیا گیا۔ تحریر اسکوائر پر جمع مظاہرین کو وہاں صفائی کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
جمعہ کو رات گئے احتجاج کے منتظمین نے دو اعلامیے جاری کیے، جن میں حسنی مبارک کی جانب سے نافذ ایمرجنسی اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔ انہوں نے مبارک کی جانب سے 29 جنوری کو مقرر کی گئی کابینہ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ بھی کیا جبکہ یہ بھی کہا کہ گزشتہ برس کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والے پارلیمنٹ کو بھی معطل کیا جائے۔
اصلاحات پسند کارکن چاہتے ہیں کہ پانچ رکنی صدارتی کونسل بنائی جائے، جس کا صرف ایک رکن فوج سے ہو۔ وہ آئندہ نو ماہ کے اندر انتخابات بھی چاہتے ہیں جبکہ نئے جمہوری آئین کا مسودہ تیار کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے آزاد میڈیا کا نکتہ بھی اٹھایا ہے۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ عسکری اور ایمرجنسی عدالتیں ختم کی جائیں۔ دوسری جانب مصر بھر میں جشن کا سماں بدستور برقرار ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے مصر میں تبدیلیوں کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اپنی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو اردن اور اسرائیل روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مصر میں حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بننے والے مظاہرے 25 جنوری کو شروع ہوئے۔ اس دوران مظاہرین ملک میں بے روزگاری، غربت اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے مبارک سے اقتدار سے علیٰحدہ ہونے کا مطالبہ کرتے رہے۔
قبل ازیں حسنی مبارک نے اقتدار سے فوری طور پر علیٰحدہ ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ستمبر کے انتخابات تک صدارت کے منصب پر فائز رہیں گے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: کشور مصطفیٰ