مظاہرین پر فائرنگ کا مقدمہ، متاثرہ یمنی خاندانوں کا بائیکاٹ
10 جولائی 2011ہلاک شدگان کے لواحقین نے ایک مرتبہ پھر اپنا یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ صدر علی عبداللہ صالح اپنے عہدے سے مستعفی ہوں۔ متاثرہ خاندانوں کے وکیل عبدالرحمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ عدالت میں صرف 27 ملزمان پیش ہوئے جبکہ مظاہرین پر فائرنگ کے مبینہ طور پر ذمہ دار اہلکاروں میں سے کوئی ایک بھی اہم ملزم عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔
بند کمرے میں ہونے والی اس مقدمے کی عدالتی سماعت سے چند گھنٹے قبل واشنگٹن میں یمنی سفارتخانے کی جانب سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا کہ ملک کے جنوب میں القاعدہ کے عسکریت پسندوں نے یمن کی خراب سکیورٹی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
18 مارچ کو دارالحکومت صنعاء کی یونیورسٹی میں تاک کر نشانہ بنائے جانے والے یہ 53 مظاہرین صدر علی عبداللہ صالح کے 33 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔ اس واقعے کو یمن میں رواں برس کے دوران اب تک کا سب سے خونریز واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
متاثرہ خاندانوں کے وکیل عبدالرحمان کے مطابق وزارت داخلہ نے واقعے سے قبل یونیورسٹی سے سکیورٹی اہلکاروں کو ہٹا کر قاتلوں کی معاونت کی تھی۔ اس واقعے کے بعد صدر صالح نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔
تیونس میں عوامی مظاہروں کے بعد صدر زین العابدین بن علی کے اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو جانے کے بعد مصر، لیبیا، شام اور یمن سمیت متعدد عرب ریاستوں میں جمہوریت کے حق میں مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔ مصر میں ایسے ہی مظاہروں کے نتیجے میں گزشتہ کئی عشروں سے برسر اقتدار صدر حسنی مبارک کو بھی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے تاہم یمنی صدر علی عبداللہ صالح منصب صدارت چھوڑنے سے تاحال انکار کر رہے ہیں۔
عبدالرحمان کے مطابق: ’’عدالت کے بند کمرہ اجلاس میں 27 ملزمان پیش ہوئے جبکہ باقی ملزمان کے خلاف ان کی غیر حاضری میں مقدمے کا آغاز کر دیا گیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے اصل ذمہ داران کو نہ تو تفتیش کا حصہ بنایا گیا اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان کے مطابق متاثرہ خاندانوں کا مطالبہ ہے کہ ان ہلاکتوں کے اصل ذمہ دار عناصر کے ساتھ ساتھ ملک کی سینٹرل سکیورٹی کے سربراہ اور سٹاف کے علاوہ اسپیشل فورسز کے کمانڈر کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک