1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مظاہرین پر فائرنگ کا مقدمہ، متاثرہ یمنی خاندانوں کا بائیکاٹ

10 جولائی 2011

جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے والے 53 مظاہرین کے قتل کے الزام میں یمن میں 78 افراد کے خلاف شروع ہونے والے مقدمے کی سماعت کا متاثرہ خاندانوں نے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/11sPs
تصویر: picture alliance / dpa

ہلاک شدگان کے لواحقین نے ایک مرتبہ پھر اپنا یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ صدر علی عبداللہ صالح اپنے عہدے سے مستعفی ہوں۔ متاثرہ خاندانوں کے وکیل عبدالرحمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ عدالت میں صرف 27 ملزمان پیش ہوئے جبکہ مظاہرین پر فائرنگ کے مبینہ طور پر ذمہ دار اہلکاروں میں سے کوئی ایک بھی اہم ملزم عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔

بند کمرے میں ہونے والی اس مقدمے کی عدالتی سماعت سے چند گھنٹے قبل واشنگٹن میں یمنی سفارتخانے کی جانب سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا کہ ملک کے جنوب میں القاعدہ کے عسکریت پسندوں نے یمن کی خراب سکیورٹی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

18 مارچ کو دارالحکومت صنعاء کی یونیورسٹی میں تاک کر نشانہ بنائے جانے والے یہ 53 مظاہرین صدر علی عبداللہ صالح کے 33 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔ اس واقعے کو یمن میں رواں برس کے دوران اب تک کا سب سے خونریز واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔

Jemen Demonstration gegen Regierung Kontrollpunkt in Sanaa
یمنی سفارتخانے کے مطابق القاعدہ کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہےتصویر: picture alliance/dpa

متاثرہ خاندانوں کے وکیل عبدالرحمان کے مطابق وزارت داخلہ نے واقعے سے قبل یونیورسٹی سے سکیورٹی اہلکاروں کو ہٹا کر قاتلوں کی معاونت کی تھی۔ اس واقعے کے بعد صدر صالح نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔

تیونس میں عوامی مظاہروں کے بعد صدر زین العابدین بن علی کے اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو جانے کے بعد مصر، لیبیا، شام اور یمن سمیت متعدد عرب ریاستوں میں جمہوریت کے حق میں مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔ مصر میں ایسے ہی مظاہروں کے نتیجے میں گزشتہ کئی عشروں سے برسر اقتدار صدر حسنی مبارک کو بھی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے تاہم یمنی صدر علی عبداللہ صالح منصب صدارت چھوڑنے سے تاحال انکار کر رہے ہیں۔

عبدالرحمان کے مطابق: ’’عدالت کے بند کمرہ اجلاس میں 27 ملزمان پیش ہوئے جبکہ باقی ملزمان کے خلاف ان کی غیر حاضری میں مقدمے کا آغاز کر دیا گیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے اصل ذمہ داران کو نہ تو تفتیش کا حصہ بنایا گیا اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان کے مطابق متاثرہ خاندانوں کا مطالبہ ہے کہ ان ہلاکتوں کے اصل ذمہ دار عناصر کے ساتھ ساتھ ملک کی سینٹرل سکیورٹی کے سربراہ اور سٹاف کے علاوہ اسپیشل فورسز کے کمانڈر کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں