’مظاہرے ختم نہیں ہوئے تو فوج تعینات کردونگا‘: ٹرمپ
2 جون 2020امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر مختلف ریاستیں اور شہری انتظامیہ مظاہروں کو کنٹرول کرنے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ مسلح فوج تعینات کر کے ''فوری طور پر مسئلہ حل کر دیں گے۔''
ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی سطح پر پھیلی ہنگامہ آرائی کو ختم کرنے کے لیے تمام دستیاب وفاقی وسائل کو متحرک کر رہے ہیں۔ انہوں نے ریاستی حکومتوں کو گلیوں کے باہر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بڑی تعداد میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''اگر انہوں نے کارروائی نہیں کی تو میں امریکی فوج کو تعینات کر دونگا۔''
امریکی صدر نے پر تشدد مظاہروں کو گھریلو دہشتگردی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا، ''میں ہنگامہ آرائی، لوٹ اور توڑ پھوڑ کی روک تھام کے لیے ہزاروں کی تعداد میں بھاری اسلحوں سے لیس فوج، ملٹری کے عملے اور قانون نافذ کرنے والے افسران کو بھیج رہا ہوں۔''
ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی انتخاب کے ممکنہ امیدوار جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کی تجویز پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''مسٹر ٹرمپ امریکی فوج کو ہی امریکی شہریوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔'' سینیٹ میں حزب اختلاف کے رہنماچک شومر کا کہنا تھا، ''یہ صدر کتنی اوچھی حرکت کر سکتا ہے؟ ان کے اعمال ہی اس کی اصل فطرت کی عکاسی کرتے ہیں۔''
مختلف ریاستوں کے گورنروں نے بھی صدر ٹرمپ کے اس دھمکی آمیز بیان پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ واشنگٹن کے گورنر جے انسلی نے کہا کہ ٹرمپ نے، ''کئی بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ حکمرانی کے اہل نہیں ہیں، ان کے پورے دور صدارت میں بارہا پھیلتی بدنظمی کے دوران وہ صرف بڑی بڑی جھوٹی باتیں ہی کرتے رہے ہیں۔میں دعا گو ہوں کہ ان کی اس لاپرواہ کارروائی سے کوئی شہری اور فوجی زخمی اور ہلاک نہ ہونے پائے۔''
اوریگان کی گورنر کیٹ براؤن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ریاست میں مظاہروں کو دبانے کے لیے نیشنل گارڈز کا استعمال نہیں ہونے دیں گی۔ ''آپ فوجیوں کو روڈ پر تعینات کرکے تشدد کو کم نہیں کر سکتے۔''
امریکی شہر منی ایپلس کے 46 سالہ سیاہ فام جارج فلوئیڈ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوئے تھے اور جس طرح ان کی موت ہوئی اس کے خلاف امریکا کی تقریبا ًسبھی پچاس ریاستوں میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ کئی واقعات میں تشدد کے بڑے واقعات پیش آئے ہیں۔ اس پر قابو پانے کے لیے نیو یارک سمیت بیشتر شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اس دوران جارج فلوئیڈ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی مںظر عام پر آگئی ہے جس کے مطابق دم گھنٹنے سے ان کی موت ہوئی اور جس طرح وہ ہلاک ہوئے اسے قتل قرار دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے باہر ایک بار پھر مظاہرین جمع ہوئے اور احتجاج کیا۔ اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سینٹ جانز چرچ جانا چاہتے تھے جس کی وجہ سے مظاہرین کو منشتر کرنے اور راستہ صاف کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کے شیلز داغے اور ساؤنڈ گرینیڈ کا استعمال کیا۔
واشنگٹن کے سینٹ جارج کے باہر صدر ٹرمپ نے ہاتھ میں بائبل پکڑ تصویر کھنچوائی اور کہا ہے کہ ''ہمارے پاس ایک عظیم ملک ہے۔'' لیکن چرچ کے پادریوں کے سربراہ نے ٹرمپ کے چرچ کے اس دورے کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے چرچ کی عمارت اور مقدس بائبل کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیا ہے۔
اس دوران مختلف شہروں میں پولیس اب تک پانچ ہزار سے بھی زیادہ افراد کو گرفتار کر چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ادھر ٹوئٹر کے بانی جیک ڈورزی نے بھی محکمہ پولیس میں اصلاحات کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا، ''پولیس پالیسی میں فوری اصلاحات کرو۔''
امریکا میں پولیس کی زیادتیوں کے خلاف ہونے احتجاج مظاہروں کی بازگشت یوروپ کے بھی کئی ممالک میں سنی جا سکتی ہے۔ نیوزی لینڈ اور یوروپ کے بھی کئی شہروں میں عوام نے جارج فلوئیڈ اور امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے ہیں۔
اس دوران ہانگ کانگ کے رہنما کیری لام نے امریکا پر دوہرے معیار اپنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکی مظاہرین کے ساتھ نمٹنے کے طور طریقوں کے حوالے سے امریکا پر نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''آپ کو معلوم ہے امریکا میں فسادات برپا ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ مقامی انتظامیہ انہیں دبانے کے لیے کیا کر رہی ہے۔ تو جب ہم ہانگ کانگ میں اسی طرح کی ہنگامہ آرائی کے تدارک کے لیے اقدامات کرتے ہیں تو ہم نے دیکھ رکھا ہے کہ ان کا موقف کیا ہوتا ہے۔''
ص ز / ج ا (ایجنسیاں)