مغرب چين کی مالی مدد کا ضرورتمند ليکن محتاط
12 ستمبر 2011آئس لينڈ پر ايک تفريحی مقام کھولنے کے لنے ايک چينی تاجر کی کوشش پر جو ردعمل ہوا ہے، اُس سے چين اور يورپ کے درميان شکوک اور اُن کے تعلقات کشيدہ ہونے کے انديشوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔
چين نے افريقہ کے چھوٹے ممالک ميں وسيع پيمانے پر سرمايہ کاری کی ہے۔ اس پر اسی طرح کم توجہ دی گئی جتنی کہ اب يورپ ميں چين کی سرمايہ کاری، معيشی ڈھانچے ميں شرکت، يورپی کمپنيوں کی خريد اور قرضوں کی خريد پر دی جا رہی ہے۔
چين کے سابق سرکاری افسر اور لکھ پتی شاعر ہوآنگ نوبو نے آئس لينڈ پر ايک 300 مربع کلو ميٹر فارم کو 85.8 ملين ڈالر ميں خريدنے کی پيشکش کی ہے۔ اگرچہ ہوآنگ کا کہنا ہے کہ يہ خالص تجارتی نوعيت کا منصوبہ ہے اور وہ صرف ہوٹل، گولف کھيلنے کا ميدان اور دوسری پر تکلف خدمات خريدنا چاہتے ہيں، ليکن يہ شبہ ظاہر کيا جا رہا ہے کہ چين اس طرح قدرتی معدنی وسائل سے مالا مال آرکٹک کے علاقے ميں اپنا حلقہء اثر قائم کرنا چاہتا ہے۔
حقيقت چاہے کچھ بھی ہو، مالی ماہرين کا کہنا ہے کہ يہ چين جيسے مسلسل امير تر ہوتے ہوئے ملک کے ليے بالکل معمول کی بات ہے کہ وہ اپنی دولت کو مختلف شعبوں اور ملکوں ميں لگانا چاہتا ہے اور اس ليے اب وہ يورپ ميں بھی اپنی سرمايہ کاری کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ يورپی خارجہ تعلقات کی کونسل کی رابطہ کار برائے چين الائس رچرڈ کا کہنا ہے: ’’يورپ چين کو زيادہ تراقتصادی نقطہء نظر سے ديکھتا ہے۔ ليکن ممکن ہے کہ اب اس ميں تبديلی ہو۔‘‘ کونسل کا کہنا ہے کہ يورپ ميں چينی سرمايہ کاری کی حقيقی سطح کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بہت سی فرمز ايسے مالی مراکز کے ذريعے کاروبار کرتی ہيں، جن ميں شفافيت نہيں اور جن کی اصليت کا سراغ نہيں لگايا جا سکتا۔ ليکن اس بارے ميں کوئی شبہ نہيں کہ چين کی يورپ ميں سرمايہ کاری ميں بہت تيزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
سال رواں کی پہلی ششماہی ميں مارچ تک چينی فرموں نے يورپ ميں تقريباً 64 ارب ڈالر کی سرمايہ کاری کی۔ چين کی حاليہ سرمايہ کاری کا رُخ زيادہ تر مالی مشکلات کے شکار يورپی ممالک پرتگال، يونان، اٹلی اور اسپين کی طرف ہے۔ ليکن بڑے يورپی ممالک مثلاً فرانس اور برطانيہ بھی چين کی دلجوئی اور پذيرائی پر مسلسل زيادہ توجہ دے رہے ہيں۔
ليکن برطانيہ جيسے بعض يورپی ممالک، پرانے جنگی جہازوں جيسے خريداری کے سودوں ميں چين پر شک بھی کرتے ہيں۔ اُنہيں انديشہ کے چين اس طرح کہيں مغربی ٹيکنالوجی نہ حاصل کر لے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی