مغربی بنگال ميں عصمت فروشی کے خلاف مہم
21 دسمبر 2012روبيا بی بی نے خبر ايجنسی آئی پی ايس کو بتایا کہ وہ اب توبہ کر چکی ہے اور کھانے پينے کی چیزیں فروخت کر کے اپنی روزی کماتی ہے۔ اس کا شوہر بيمار ہے اور بيٹا بھی ذہنی اور جسمانی طور پر مريض ہے۔ اس ليے تلاش معاش اور گھر کا خرچ پورا کرنے کا سارا بوجھ اُسی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اُس نے بتايا کہ اُسے کم عمری ہی ميں بھارت لايا گيا تھا۔ ليکن اس کا کہنا ہے کہ وہ تمام تر مشکلات کے باوجود جسم فروشی کے کاروبار ميں دوبارہ نہيں جانا چاہتی۔
روبیا کا کہنا تھا کہ اسے غربت نے عصمت فروشی پر مجبور کر ديا تھا ليکن اس دھندے ميں اُسے اور بھی زيادہ مصائب جھيلنا پڑے۔ اس نے کہا کہ اسے جسم فروشی پر مجبور کيا جاتا تھا اور اُسے 18 سال کی عمر ميں عصمت فروشی پر مجبور کيا گيا تھا۔ اس نے بتايا کہ فرار کی کوشش ميں ناکام رہنے پر اُس کو اور زيادہ اذيتيں دی گئيںبھارت میں کم سن عصمت فروش لڑکيوں کی تعداد 1.2 ملين ہے۔ يہ اطلاع بھارت کے سينٹرل بيوروآف انويسٹيگيشن CBI نے فراہم کی ہے۔ بھارتی حکومت اور غير حکومتی تنظيموں کے مطابق ملک ميں جنسی کاروبار کرنے والوں کی تعداد تقريباً تين ملين ہے۔ امريکی وزارت خارجہ کے مطابق بھارت جبری محنت اور جنسی استحصال کے شکار ہونے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کی منزل ہے جہاں سے گذر کر وہ کہيں اوربھی جاتے ہيں۔ اس کے علاوہ بھارت سے ان جبری کاموں کے ليے عورتيں، مرد اور بچے پکڑے بھی جاتے ہيں۔
روبيا بی بی اب جسم فروشی اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف ايک تحريک ’t Buy Sex’Cool Man,Don‘ کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ غير حکومتی تنظيم ’اپنے آپ‘ نے اس تحريک کی ابتدا کالجوں اور يونيورسٹيوں سے کی تھی۔ وہ نوجوانوں ميں عصمت فروشی کے مسئلے کا شعور پيدا کرنا چاہتی ہے تاکہ انہيں علم ہو کہ عصمت فروشی کے ليے لڑکيوں اور عورتوں کو کس طرح مجبور بھی کيا جاتا ہے اور کس طرح وہ ايک بار اس چکر ميں پھنس جانے کے بعد بہت مشکل ہی سے نکل پاتی ہيں۔ يہ تنظيم اپنی عصمت فروشی کے خلاف مہم کے ذريعے نوجوانوں کو ايڈز کے خطرے سے بھی آگاہ کرنا چاہتی ہے۔
sas/aba(IPS)