1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی دنیا شام میں فوجی کارروائی سے گریزاں کیوں ؟

1 ستمبر 2011

جہاں دنیا بھر کے مسلم ملکوں میں ماہ رمضان کے بعد خوشیاں منائی جا رہی ہیں، وہاں شامی حکومت مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس پر یورپی یونین، امریکہ حتیٰ کہ ایران بھی سراپا احتجاج ہے۔

https://p.dw.com/p/12RXI
شام کے صدر بشارالاسدتصویر: dapd

مگر کوئی بھی وہاں پر فوجی کارروائی کی بات نہیں کرتا، حتیٰ کہ نیٹو بھی نہیں، جو لیبیا میں فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ شام کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت بناتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے اس ملک سے تیل کی درآمد روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس طرح دمشق حکومت کو مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائیوں سے روکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

یورپی یونین کی طرف سے خام تیل کی درآمد پر پابندی دمشق حکومت کو مشکل سے دوچار کر سکتی ہے۔ شام کی خام تیل کی برآمدات کا نوے فیصد حصہ یورپی ملک درآمد کرتے ہیں۔ سن 2010 تک جرمنی 32 فیصد کے ساتھ سب سے بڑا خریدار تھا۔ تیل کی برآمدات سے شامی حکومت اپنی آمدنی کا تقریباﹰ 30 فیصد حاصل کرتی ہے۔ یورپی نقطہ نظر سے شام صرف ایک چھوٹا سا برآمد کنندہ ہے لیکن یورپ کو یہ ڈر بھی ہے کہ اگر وہ شامی تیل نہیں خریدتا تو اس کی جگہ چین لے سکتا ہے۔

Karte Libanon Syrien Israel Jordanien
خطے کی سیاست میں شام کا کردار بھی انتہائی پیچیدہ ہےتصویر: AP GraphicsBank

یورپی یونین کی طرف سے شام کے خلاف مزید پابندیاں قذافی حکومت کے خاتمے کے چند روز بعد سامنے آئی ہیں۔ شاید تیل کے حوالے سے لیبیا کو شام کا متبادل تصور کیا جا رہا ہے۔ لیبیا میں کامیاب فضائی مشن کے باوجود نہ تو یورپی یونین اور نہ ہی نیٹو اس طرح کی کارروائی شام میں کرے گا، یہاں تک کہ امریکہ بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ امریکہ عراق اور افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور نئی جنگ اس کے لیے مشکل ہے بلکہ اس کی وجہ شام کے تنازعے کی پیچیدگی بھی ہے۔

لیبیا کی چھ ملین آبادی کے برعکس شام کی آبادی چار گنا زیادہ ہے۔ ملک میں فوجی بغاوت یا پھر بیرونی فوجی مداخلت کی صورت میں مشرق وسطیٰ کا پورہ خطہ خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ خطے کی سیاست میں شام کا کردار بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں شام وہ آخری ملک ہے جسے اسرائیل کے لیے ابھی بھی خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ ابھی تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ دمشق کو حماس کا ہیڈ کوارٹر بھی سمجھا جاتا ہے جبکہ حماس کے سربراہ خالد مشعل بھی شام میں ہیں۔

شام کو لبنان کی سیاست سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ایران اور دمشق حکومت لبنان کی شیعہ جماعت حزب اللہ کے بڑے اتحادی ہیں جبکہ عرب دنیا میں دمشق حکومت تہران کی واحد اتحادی بھی ہے۔ شام میں عراقی پناہ گزینوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ شام کے سعودی حکومت اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ لبنان کے سابق سنی وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کا الزام بھی سب سے پہلے شام پر ہی لگایا گیا تھا۔ اگر شام میں فوجی مداخلت کی گئی تو اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ خطے میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اسد خاندان کا تعلق شام میں بسنے والے علوی فرقے سے ہے۔ شام میں علوی فرقے کی آبادی تیرہ فیصد ہے۔ شاید مغربی دنیا اس وجہ سے بھی فوجی کارروائی سے گریزاں ہے کہ لیبیا کی طرح شام تیل کی دولت سے مالا مال نہیں ہے۔

تبصرہ: پیٹرفیلپ

ترجمہ: امتیاز احمد

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں