مقتدیٰ الصدر کی واپسی
20 مارچ 2016عراقی دارالحکومت بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون کے داخلی دروازوں کے باہر شعلہ بیان شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے دھرنا دے رکھا ہے۔ شیعہ رہنما کے مطابق اُن کے مظاہروں کا مقصد ملک کے اندر حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی کرپشن کا خاتمہ ہے۔ گزشتہ جمعے سے حکومتی انتباہ کے باوجود الصدر کے حامیوں نے وسطی بغداد کے گرین زون کے مرکزی گیٹ کے باہر احتجاجی خیمے نصب کر رکھے ہیں۔ شیعہ رہنما وزیراعظم حیدر العبادی سے ٹیکنوکریٹس پر مبنی حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے ٹیکنو کریٹس پر مبنی حکومت تشکیل دینے کا اعلان خود کیا تھا لیکن وہ ابھی تک اپنے اس وعدے پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔ مبصرین کے مطابق العبادی کے طاقتور وزراء اپنے اپنے منصب چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اِس صورت حال پر خیال کیا جا رہا ہے الصدر کی تحریک سے وزیراعظم ہی کو نہ کہیں اپنا عہدے سے ہاتھ دھونا پڑ جائے۔ جمعے کے روز مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ رہنما نے کہا کہ یہ مظاہرین کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ کرپشن اور بدعنوان افراد کو حکومت اور انتظامی حلقوں میں سے اکھاڑ کر پھینک دیں۔
گزشتہ جمعے کے روز بغداد کے گرین زون کے باہر ہزاروں افراد نے ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ گزشتہ کئی جمعوں سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور با اثر شیعہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر نے مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔جمعے کو مظاہرین گرین زون کے باہر پارلیمان کو جانے والے گیٹ کے سامنے نمازِ جمعہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ اس مناسبت سے عراقی وزارتِ داخلہ نے واضح کیا تھا کہ مظاہرین کو اس مقام پر دھرنا دینے یا کسی قسم کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گرین زون علاقے میں مختلف ملکوں کے سفارت خانے قائم ہیں۔
مقتدیٰ الصدر عراق کے شہر نجف کے ایک اہم شیعہ مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِسی شہر نجف میں پیغمبر اسلام کے داماد اور شیعہ مذہب کی اہم ترین شخصیت حضرت علی کا روضہ بھی ہے۔ الصدر کے والد اور دوسرے پرانے بزرگ افراد اِس روضے سے منسلک مذہبی درسگاہ سے وابستہ رہے ہیں۔ اُن کے والد کے علاوہ خاندان کے کئی دوسرے افراد صدام حسین کے دور میں حکومتی جبر کا نشانہ بنے تھے۔ وہ خود تیس برس کی عمر میں امریکا کی مخالفت میں منظر عام پر آئے اور انہوں نے شیعہ آبادی میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ سن 2011 میں انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی لیکن اُن کا حلقہٴ اثر بدستور قاتم رہا۔