1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقتول جرمن لڑکی کے لیے بہادری کے میڈل کا امکان

عابد حسین1 دسمبر 2014

جرمن شہر فرینکفرٹ کے قریبی قصبے اوفن باخ میں ٹین ایجرز لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی کوشش روکنے کی پاداش میں شدید زخمی کر دی جانے والی ترک نژاد جوان سال لڑکی توجچے البیراک کے بدن سے زندہ رکھنے والی مشینیں ہٹا دی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DxOU
تصویر: picture-alliance/dpa/Roessler

توجچے البیراک تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ٹیچر بھی تھیں۔ اوفن باخ کے ایک ریسٹورنٹ کے طہارت خانے میں دو ٹین ایجرز لڑکیوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور اُن کی مدد کے لیے البیراک وہاں پہنچی تو اُس نے نوعمر لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے والے لڑکوں کی سرزنش کی۔ بعد میں جب وہ ریسٹورانٹ سے رخصت ہو کر واپس جا رہی تھی تو پارکنگ ایریا میں زیادتی کی کوشش کرنے والوں میں سے ایک نے پیچھے سے اُس پر ایک بیٹ نما لکڑی کے ڈنڈے سے حملہ کیا۔ اِس حملے میں توجچے البیراک کے سر پر انتہائی گہری چوٹیں آئیں۔ وہ دماغی چوٹ کے بعد کومے میں چلی گئیں۔

یہ واقعہ 15نومبر کا ہے۔ تیرہ دن تک وہ کومے میں رہیں۔ اِس دوران وہ زندگی بچانے والی مشینوں کے سہارے زندہ رکھی گئی تھیں۔ ان کے والدین کو ڈاکٹروں نے گزشتہ ہفتے کے دوران مطلع کر دیا تھا کہ اُن کی بیٹی کا دماغ مکمل طور پر مردہ ہو چکا ہے اور وہ صرف مشینوں کے سہارے ہی زندہ رہ سکتی ہیں اور کبھی ہوش میں نہیں آ سکتیں۔ توجچے البیراک کے والدین نے ڈاکٹروں کے مشورے کے بعد اُن سے درخواست کی 28 نومبر بروز جمعہ، زندگی بچانے والی مشینیں، اُن کی بیٹی کے بدن سے جدا کر دی جائیں۔ یہ توجچے البیراک کی تیئیسویں سالگرہ کا دن تھا۔ مشینیں ہٹانے کے بعد مردہ دماغ کی طرح اُن کا بدن بھی مردہ ہو گیا۔

Mahnwache für Tugce vor Klinik in Offenbach 28.11.2014
توجچے البیراک کا انتقال اوفن باخ کے ہسپتال میں ہوا، وہاں سوگواروں کا ہجومتصویر: picture alliance/AA/Kaman

جرمن میڈیا کے مطابق توجچے البیراک پر حملہ کرنے والے ایک شخص کو پولیس حراست میں لے لیا ہے۔ اُس کی عمر اٹھارہ برس بتائی گئی ہے اور وہ سربیا کے علاقے ساندزاک سے تعلق رکھتا ہے۔ پولیس نے پرائیویسی قانون کے تحت اُس کا نام صرف سینال ایم بتایا ہے۔ سینال ایم نے البیراک پر ڈنڈے سے حملہ کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ توجچے البیراک کی بہادری کے اعتراف میں جرمن عوام کے مختلف طبقوں کی جانب سے بھرپور خراج تحسین پیش کیا جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن میں اتوار کی شام ایک بڑی دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔

جرمن عوام کی جانب سے صدر یوآخم گاؤک کو ایک اپیل پیش کی جائے گی جس میں مقتول توجچے البیراک کو بہادری کا میڈل دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ اِس اپیل پر ایک لاکھ سے زائد افراد کے دستخط حاصل کر لیے گئے ہیں۔ جرمن صدر نے اِس اپیل پر غور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ اُن کی جانب سے البیراک کے خاندان کے نام تعزیتی پیغام میں کہا گیا کہ دوسرے شہریوں کی طرح ان کو بھی اِس بہیمانہ واقعے پر گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ جرمن صدر نے البیراک کو ایک رول ماڈل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے موقع پر جب لوگ دوسری جانب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں تو اُس نے بہادری اور حوصلے کا نمونہ بنتے ہوئے بلند اخلاقی کردار کا مظاہرہ کیا۔