مقدونیہ اور یونان کی سرحد پر مہاجرین اور پولیس کی جھڑپیں
29 نومبر 2015مقدونیہ کے حکام کے مطابق پتھراؤ سے کم از کم اٹھارہ پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔ مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ ممالک سے ہجرت کر کے یورپ داخل ہونے والے افراد کی کسی بھی یورپی ملک کی پولیس کے ساتھ یہ شدید ترین جھڑپ قرار دی گئی ہے۔
طبی ذرائع کے مطابق زخمی ہونے والے پولیس اہل کاروں میں سے دو کو ہسپتال داخل کروا دیا گیا ہے۔ مہاجر مظاہرین پر مقدونیہ کی پولیس نے اسٹن گرینیڈ اور پلاسٹک کی گولیاں بھی چلائیں، جس سے متعدد مہاجرین زخمی ہوئے۔ صلیب احمر فلاحی تنظیم اور علاقے میں فعال دیگر غیرسرکاری تنظیموں نے کم از کم بیس مہاجرین کو طبی امداد فراہم کی ہے۔
’سرحد بند نہیں کر رہے‘
غیرقانونی مہاجرین کو روکنے کے لیے ہفتے کے روز مقدونیہ نے یونان کے ساتھ اپنی سرحد پر خار دار باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ یہ باڑ مقدونیہ کے فوجی اہل کاروں نے لگانا شروع کی ہے۔ یہ باڑ اُسی انداز میں لگائی جا رہی ہے جس طرح ہنگری نے سربیا اور کروشیا سے ملحقہ سرحد پر لگا رکھی ہے۔
مقدونیہ کی حکومت کے ایک ترجمان ایلیگزانڈر جورجی ایو کا کہنا ہے کہ باڑ صرف مہاجرین کو ’’کنٹرول کرنے کے لیے لگائی جا رہی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہم یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ سرحد کھلی رہے گی۔ ہم ان لوگوں کو راستہ دیں گے جو جنگ زدہ ممالک سے یہاں آ رہے ہیں۔‘‘
مہاجرین کے لیے راستہ مشکل تر ہوتا ہوا
مشرق وسطیٰ کے خانہ جنگی کا شکار ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں افراد یورپی یونین کا رخ کر رہے ہیں جس کے باعث یورپ میں ایک بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
ستمبر تک مہاجرین ترکی سے یونان اور پھر وہاں سے مقدونیہ اور سربیا سے گزرتے ہوئے یورپی ملک ہنگری میں داخل ہو رہے تھے۔ ہنگری اور سربیا کے درمیان سرحد کو خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا تھا، جس کے بعد پناہ گزین کروشیا کے راستے ہنگری پہنچنا شروع ہو گئے۔ ہنگری کی حکومت نے کروشیا کے ساتھ اپنی سرحد کو بھی بند کر دیا تو مہاجرین نے نیا راستہ اختیار کر لیا۔ اب مہاجرین کروشیا سے سلووینیہ اور پھر وہاں سے آسٹریا پہنچ رہے ہیں۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ سردی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی کم ہو جائے گا تاہم زمینی صورت حال توقعات کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ تر مہاجرین کی منزل جرمنی، سویڈن اور دیگر اسکنڈے نیوین ممالک ہیں۔ تارکین وطن کو اندیشہ ہے کہ ان کی منزل تک پہنچنے کے لیے یہ نیا راستہ بھی عنقریب بند ہو جائے گا۔
یہ ممالک مشرق وسطیٰ، بالخصوص شام اور عراق کے ان ہزاروں مہاجرین کے لیے عارضی پڑاؤ بھی ہیں جو کہ مغربی اور شمالی یورپی ممالک پہنچنے کے خواہش مند ہیں۔
چند ماہ قبل آسٹریا نے بھی اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کی وجہ وزیر داخلہ یوہانا میکل لائٹنر نے یہ بتائی تھی: ’’خار دار تاریں لگانے کا مقصد چیزوں کو ترتیب میں رکھنا اور ملک میں مہاجرین کی آمد کو قابو میں رکھنا ہے۔ اس کا مقصد ہرگز سرحد کو بند کر دینا نہیں ہے۔‘‘
مبصرین کے مطابق مہاجرین کا مسئلہ بگڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ موسم سرما کی آمد ہے اور لوگوں کو شدید سردی میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔