1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملائیشیا کے اپوزیشن رہنما ترک سفارتخانے سے باہر آگئے

ہُما صدف30 جون 2008

ملائیشیاکے سرکردہ اپوزیشن رہنما انور ابراہیم کوالالمپور حکومت کی جانب سے جان کے تحفّظ کی ضمانت کے بعد دارلحکومت میں موجود ترک سفارت خانے سے باہر آ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/ETnk
ملائیشیا کی پیپلز جسٹس پارٹی کی طرف سے جاری کردہ اس تصویر میں اپوزیشن رہنما انور ابراہیم ا پنی ہی جماعت کے ایک اور رہنما سے گفتگو کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیںتصویر: AP

انور ابراہیم نے اتوار کے روز ترک سفارت خانے میں یہ کہہ کر پناہ لی تھی کہ انہیں حکومت کی جانب سے قتل کر دیئے جانےکا اندیشہ ہے۔ تاہم ملائیشیا کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ انور ابراہیم کی جان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انورابراہیم کے حمایتیوں نے بھی ایک تئیس سالہ شخص سیفُ البخاری ازلان کے اس الزام کے بعد کہ اپوزیشن رہنما نے اسے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، اپنے رہنما کی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کیاہے۔

وفاقی حکام کے مطابق سیفُ البخاری کو طبّی معائنے کی غرض سے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

انور ابراہیم نے ترک سفارت خانے میں پناہ کے دوران سیفُ البخاری ازلان پر ہتکِ عزّت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ اس سے قبل ملائیشیا کے وزیرِ خارجہ رئیس یاتِم نے ترکی پر ملائیشیا کے اندرونی داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ جبکہ انور ابراہیم کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ اگر وزیرِاعظم خود ان کی حفاظت کی ضمانت دیں تو وہ پناہ سے باہر آنے کو تیار ہیں۔ تاہم انور ابراہیم یا ان کی جماعت دونوں نے ہی قتل کی دھمکیوں کی وضاحت نہیں کی تھی۔

Malaysia Anwar Ibrahim Zuflucht in türkischer Botschaft
ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں واقع ترک سفارت خانے کے باہر ایک پولیس اہلکار گشت کرتے ہوئےتصویر: AP

سیفُ البخاری کی جانب سے جنسی زیادتی کا الزام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب انور ابراہیم بدعنوانی کے الزام میں سزا کاٹنے کے بعد ایک بار پھر سے کسی سیاسی عہدے پر فائز ہونے کے اہل تصور کئے جارہے ہیں۔

دس برس قبل انور ابراہیم کو وزیرِاعظم مہاتیر محمد کے خلاف اصلاحاتی تحریک کے دوران نائب وزیرِاعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ان کے خلاف جنسی زیادتی اور بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے۔ انور ابراہیم دونوں ہی مقدمات میں مجرم قرار پائے تھے۔ تاہم 2004 میں وہ مجرمانہ نوعیت کے ہم جنس پرستانہ روابط کے الزام سے بری ہو گئے تھے۔ ملائیشیا میں مردوں کے باہمی طور پرہم جنس پرستانہ جسمانی رابطےقانوناً ایک جرم ہیں اور مجرم کو بیس برس تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

انورابراہیم کے مطابق پارلیمان میں‘ پہلے سے مشکلات کی شکار‘ موجودہ حکومت کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے منصوبہ تشکیل دینے کے باعث ان کو سیاسی سازش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس صورتحال سے پہلے بھی گزر چکے ہیں اس لئے وہ جانتے ہیں کہ سوڈومی کے الزامات مبنی بر صداقت نہیں ہیں۔

اس وقت ملائیشیا گزشتہ دس برسوں میں اپنے سب سے برے سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔