1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل لنڈا بازار کی شکل اختیار کرچُکا ہے

13 ستمبر 2021

افغانستان سے فرار ہونے اور اپنی روزمرہ غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے افغان باشندوں نے کابل شہر کو استعمال شدہ اور پرانی اشیا کے بازار یا لنڈا بازار میں گھر وں کا سامان فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/40G5c
Afghanistan Kabul | Flohmärkte mit Habseligkeiten von Flüchtlingen
تصویر: WAKIL KOHSAR/AFP

افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک سے فرار  ہونےکی کوشش کرنے والے افغان باشندوں کی پریشانیاں اور مایوسیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سخت گیر موقف رکھنے والے طالبان سے خوف زدہ  افغان شہری ہر صورت میں ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں سنگین معاشی اور معاشرتی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ایسی صورتحال میں دارالحکومت کابل میں ایک بہت بڑا لنڈا بازار لگ گیا ہے جہاں شہریوں نے اپنے اپنے گھروں کی تمام تر اشیا فروخت کے لیے رکھ دی ہیں، صرف اس امید پر کے اس سے چار پیسے بنا کر ، اگر ان کی قسمت نے ساتھ دیا تو ملک سے فرار ہو سکیں گے یا پھر وہ اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کا پیٹ پال سکیں گے۔

نیٹو افواج کا سامان، پاکستانی بازاروں میں

شدید مالی مسائل

اگست کے وسط میں سقوط کابل کے بعد طالبان نہایت جارحانہ انداز میں ملک بھر پر قابض ہونا شروع ہوئے۔ معاشرے میں ایک بحران اور شدید نوعیت کی افراتفری پھیل چُکی ہے۔ مقامی باشندوں کے لیے جاب یا روزگار کے مواقع سکڑتے سکڑتے ناپید ہو چُکے ہیں۔ افغان باشندے فی الحال ہفتے میں 200 ڈالر سے زیادہ اپنے بینک اکاؤنٹ سے نہیں نکلوا سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں نقد رقم کی شدید قلت پیدا ہو چُکی ہے۔ کابل کے پہاڑی علاقوں میں قائم بستی کے ایک رہائشی محمد احسن اپنے گھر سے دو کمبلیں کابل کے لنڈا بازار میں بیچنے آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،'' ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ ہم بہت غریب ہیں ہم یہ چیزیں بیچنے پر مجبور ہیں۔‘‘ محمد احسن نے بتایا کہ وہ ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا تھا لیکن تعمیراتی منصوبے منسوخ یا روک دیے گئے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا،'' امیر افراد کابل میں رہتے تھے مگر اب سب ہی یہاں سے فرار ہو چُکے ہیں۔‘‘

Afghanistan Kabul | Flohmärkte mit Habseligkeiten von Flüchtlingen
روزمرہ کے استعمال کی ہر طرح کی اشیا دستیابتصویر: WAKIL KOHSAR/AFP

کابل کے لنڈا بازار کا منظر

پلیٹیں، گلاس، باورچی خانے کا سامان اور دیگر استعمال کی اشیا  کابل کے کھلے عام یا آؤٹ ڈور بازار میں عارضی میزوں پر بکھری پڑی ہیں۔ اس کے علاوہ 90 کی دہائی میں استعمال ہونے والے ٹیلی وژن سیٹس اور پرانی سلائی مشین 'سنگر برانڈ‘ کی، لپیٹی ہوئے قالین ایک پرانے صوفے پر رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے گھروں سے فروخت کے لیے اس طرح کا سامان دور دراز علاقوں سے کاندھوں پر یا ریڑھیوں پر لادے افغان باشندے کابل کے اس لنڈا بازار کا رُخ کرتے دکھائے دے رہے ہیں۔

لا تعداد ایسے افغان باشندوں میں سے ایک محمد احسن بھی ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں یکے بعد دیگرے تبدیلیاں دیکھیں اور  مشکلات جھیلی ہیں۔ احسن اور دیگر افغان باشندے طالبان کے خوشحالی اور بہتری کے دعووں کے بارے میں نہایت محتاط ہیں۔ ایسے دعوے 1996 ء سے 2001 ء تک طالبان کے سابقہ دور حکومت میں بھی اکثر و بیشتر کیے گئے تھے۔ محمد احسن کہتے ہیں،'' آپ ان میں سے کسی ایک کا بھی یقین نہیں کر سکتے۔ ‘‘ 

کابل کا بُش بازار: رونقیں ماند، دوکاندار پریشان

 ہر طرح کی آمدن کی کوششیں

کابل کے لنڈا بازار میں الیکٹرونک سامان جیسے کے اسٹیریوز، پنکھوں اور واشنگ مشینوں وغیرہ کی مرمت کا بندو بست بھی کیا گیا ہے تاکہ ایسے پرانے آلات میں پائے جانے والے نقص کو دور کر کے انہیں قابل استعمال بنا کر فروخت کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ افغان ٹین ایجرز اپنے موبائل اسٹالز پر گاجر اور انار کا تازہ جوس نکال کر فروخت کر رہے ہیں جبکہ دیگر نوجوان بھیڑ والے اس بازار میں ریڑھیوں پر آلو، انڈے اور کیلے وغیرہ فروخت کر رہے ہیں۔

Afghanistan Kabul | Flohmärkte mit Habseligkeiten von Flüchtlingen
یہ گڑیا کبھی کسی بچی کا کھلونا رہی ہوگیتصویر: WAKIL KOHSAR/AFP

 ایک کباڑیا جو استعمال شدہ اشیا کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے مگر پہلے وہ خراب یا بیکار مشینوں کی مرمت کر کے انہیں بازار میں فروخت کرتا تھا۔ اس کا کہنا ہے  کہ اس سے پہلے وہ کبھی اتنا مصروف نہیں رہا۔ ایک اور کاروباری شخص مصطفیٰ بتاتے ہیں کے وہ اپنے 'شپنگ کنٹینر‘ کو بطور دکان بروئے کار لا رہے ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے ایسے افراد جن سے اُنہوں نے سامان خریدا تھا ملک چھوڑنے کی امید میں سرحدی علاقوں کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،'' ماضی میں ہم ایک ہفتے کے اندر ایک یا دو گھروں سے سامان خریدا کرتے تھے، اب آپ کو 30 گھروں تک کی استعمال کی اشیا بیک وقت مل سکتی ہیں اور اگر آپ کے پاس بڑی دکان ہے تو آپ انہیں یہاں رکھ کر فروخت کر سکتے ہیں۔ یہاں لوگ بہت غریب اور بے بس ہیں۔‘‘ مصطفیٰ نے مزید بتایا کہ جن اشیا کی قیمت چھ ہزار ڈالر بنتی ہے وہ اب دو ہزار میں بک رہی ہیں۔ لوگ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر سامان سستے داموں بیچ رہے ہیں۔

افغانستان کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے بھی نیچے

مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے فرار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تاہم ان کی دکان سے جو شہری سامان خرید رہے ہیں ان کا تعلق دیہی صوبوں اور علاقوں سے ہے اور وہ طالبان کی جارحیت سے خوفزدہ ہو کر اور اپنے تحفظ کے لیے اپنے علاقے سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔

Afghanistan Kabul | Flohmärkte mit Habseligkeiten von Flüchtlingen
یہ دکاندار چار پیسے کما کر کے اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کا بندوبست کرنا چاہتے ہیںتصویر: WAKIL KOHSAR/AFP

مذکورہ کباڑیا ماضی میں تیرہ سال تک فوج میں ٹرینر رہا ہے۔ اب اُسے طالبان کا خوف ستا رہا ہے۔ اُس کی جان خطرے میں ہے۔ وہ کہتا ہے،'' بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ تہہ و بالا ہو چُکا ہے۔ اس لیے ہم دوسرے کام کرنے پر مجبور تھے۔ میں ایک کباڑیا بن گیا ہوں، ہمارے پاس کوئی آپشن یا متبادل نہیں ہے۔‘‘

 افغان معیشت کو شدید دھچکا

جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان پہلے ہی خشک سالی اور خوراک کی قلت کا شکار تھا کہ اسے کووڈ انیس کے پھیلنے سے مزید بدحالی کا سامنا ہے۔ اس ملک میں صحت عامہ کی خراب صورتحال مزید ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ جیسے ہی افغانستان پر طالبان نے دوبارہ قبضہ کیا اور کابل کا کنٹرول سنبھال لیا ویسے ہی مغربی ممالک نے امداد روک دی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے گزشتہ ہفتے خبر دار کیا ہے کہ افغانستان میں غربت کی نچلی ترین سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح آئندہ برس تک 72 فیصد سے بڑھ کر 97 فیصد تک جا سکتی ہے۔

ک م/ ع ح) اے ایف پی ای، اے پی(