ملیریا، ہلاکتوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی
9 دسمبر 2014عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے بیماریوں پر جاری کی گئی ایک تازہ ایک تازہ رپورٹ میں اگرچہ ملیریا کے خلاف جاری عالمی کوششوں کی ستائش کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی خبردار کیا گیا ہے کہ مچھر دانیوں کے حصول میں مشکلات اور اینٹی ملیریا طریقہ علاج میں کئی خامیاں ابھی بھی موجود ہیں۔
منگل کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں اس بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ مچھر مارنے کے لیے استعمال ہونے والی عام ادویات کے خلاف مچھروں کی مزاحمت بھی پیدا ہوئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2000ء تا 2013ء ملیریا کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں سنتالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سالانہ رپورٹ کے مطابق پانچ برس سے کم عمر کے بچوں میں ایسی ہلاکتوں میں 53 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔
ملیریا کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے نوے فیصد افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقے میں ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ تاہم اب وہاں بھی ایسی ہلاکتوں میں 54 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ گزشتہ تیرہ برسوں کے دوران اس علاقے میں ملیریا میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی چھبیس فیصد کمی ہوئی ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس ملیریا کے ممکنہ خطرے میں مبتلا ستانوے میں سے تیرہ ممالک میں ملیریا کا کوئی بھی کیس ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ان میں آذربائیجان اور سری لنکا بھی شامل ہیں، جو پہلی مرتبہ اس فہرست میں آئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے گلوبل ملیریا پروگرام کے سربراہ پیدور آلونسو نے اس رپورٹ کے انکشافات پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’صحت عامہ کے تناظر میں حقیقی طور پر یہ غیر معمولی اور خوش کن خبر ہے۔‘‘
ملیریا کے خلاف ان کامیابیوں کے باوجود بالخصوص افریقی ممالک میں یہ بیماری اب بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اب ابھی پندرہ ملین حاملہ خواتین کو اس بیماری کے خلاف کوئی ویکسین یا تدبیری ٹریٹمنٹ نہیں دی جاتی ہے جبکہ افریقہ میں اب بھی چار لاکھ سنتالیس ہزار بچے ہر سال اس بیماری سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مغربی افریقہ بالخصوص سیرالیون، گنی اور لائبیریا کے کچھ علاقوں میں انسداد ملیریا کے لیے جاری پروگرامز متاثر ہو رہے ہیں۔ ملیریا رپورٹ کے معاون مصنف رچرڈ سیبولسکس کے بقول ایبولا متاثرہ علاقوں میں بہت سے ایسے لوگ طبی مراکز کا رخ نہیں کر رہے، جو ملیریا کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں ںے خبردار کیا، ’’اگر ان افراد کو طبی مدد نہیں ملے گی تو یہ بات یقینی ہے کہ اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘