ممبئی حملوں کا پاک بھارت تعلقات پر اثر
26 نومبر 2009پاکستان کو ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد يہ ماننے ميں کئی ہفتے لگے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی اس کی سرزمين پر کی گئی تھی، اور يہ کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے۔ بھارت آج تک پاکستان پر الزام لگا رہا ہے کہ اس نے آئندہ اس قسم کے حملوں کی روک تھام کے لئے کافی اقدامت نہیں کئے، اور اس لئے نئی دہلی نے پاکستان کے ساتھ تمام مذاکرات روک رکھے ہيں۔ بھارت ميں، ممبئی دہشت گردی کے ملزمان پر پاکستان میں چلائے جانے والے مقدمے کے مقابلے ميں اس بات پر زيادہ توجہ دی جارہی ہے کہ پاکستان کا رويہ اُس تنظيم کے ساتھ کيسا ہے، جس کے بارے ميں يہ واضح معلوم ہوتا ہے کہ حملے اس نے کروائے تھے، يعنی لشکر طيبہ۔ يہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہيں کہ پاکستانی فوج اور خفيہ سروس نے ماضی ميں لشکر طيبہ کو تربيت دی تھی، تاکہ وہ خاص طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمير ميں بھارتی اہداف کو نشانہ بنا سکيں۔ دہشت گردی کے موضوع پر ايک فرانسيسی ماہر ژاں لوئی بروژير نے اپنی ايک حاليہ کتاب ميں لکھا ہے کہ يہ سلسلہ کس طرح سے 11ستمبر کے بعد بھی جاری رہا۔
اس دوران پاکستان سرکاری طور پر لشکر طيبہ سے دوری اختيار کرچکا ہے۔ ليکن معلوم ہوتا ہے کہ اس تنظيم کے ڈھانچے بڑی حد تک مضبوط ہيں۔ پاکستان ميں اکثر يہ دليل دی جاتی ہے کہ رياست طالبان اور دوسرے عسکريت پسند گروپوں کے علاوہ اسلام پسند حلقوں ميں اپنا ايک مزيد دشمن پيدا کرنے کے نتائج کی متحمل نہيں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ لشکر طيبہ کے زير زمين چلے جانے کی صورت ميں اس پر نظر رکھنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ لشکر طيبہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ایک ماہر، واشنگٹن کے اسٹيفن ٹينکل پاکستان کی اس دليل کو ايک حد تک قابل فہم سمجھتے ہيں۔ انہوں نے کہا:
"ميرے خيال ميں يہ دليل بجا ہے کہ اس گروپ کو زير زمين چلے جانے يا ٹکڑوں ميں تقسيم ہونے پر مجبور کرنا صحيح نہيں ہوگا۔ تاہم لشکر طيبہ کو ہميشہ بھارت کے خلاف جنگ کے لئے استعمال کيا گيا۔ اس پر اختلاف رائے ہے کہ کيا پاکستان اب بھی اسے بھارت کے خلاف استعمال کر رہا ہے، ليکن وہ بلا شبہ اس راستے کو کھلا رکھنا چاہتا ہے۔"
امريکہ کو پاکستانی بھارتی تعلقات کے بہتر ہونے سے بہت دلچسپی ہے، تاکہ پاکستان طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ پر بھر پور توجہ دے سکے۔ واشنگٹن کے وُوڈ رَو ولسن سينٹر کے ڈينس کُکس کئی عشروں سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر تحقيق کر رہے ہيں۔ان کا کہنا ہے کہ دونوں پرانے دشمنوں پر باہر سے ڈالے جانے والے دباؤ کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔
"اس کا کوئی زيادہ اثر نہيں ہوتا۔ عالمی برادری ماضی ميں یہ کوشش کرچکی ہے اور وہ رسمی طور پر اب بھی ايسا کر رہی ہے، ليکن دونوں ممالک وہی کرتے ہيں جسے وہ اپنے لئے صحيح سمجھتے ہيں۔"
تاہم ممبئی کے اسٹريٹيجک فور سائٹ گروپ نامی ريسرچ انسٹيٹيوٹ کے سنديپ واسليکار کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری اپنی پاکستان کے بارے ميں پاليسی کو تبديل کر لے تو اس طرح کئی تبديلياں آ سکتی ہيں۔ دنيا کو پاکستانی فوج کی مدد روک دينا چاہئے۔ واسليکار نے يہ بھی کہا کہ جب تک خاص طور پر امريکہ کے پاليسی ساز پاکستانی فوج کو ايک حل کا حصہ سمجھتے رہيں گے، اس وقت تک کچھ حاصل نہيں ہوسکے گا۔ واسليکار نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابين کشيدگی سے دونوں غريب ملکوں کو بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
جائزہ : ٹوماس بيرتھلائن، ترجمہ : شہاب احمد صديقی
ادارت مقبول ملک