مندر پر حملہ آور 'خوفزدہ' سواد اعظم
13 اگست 2021رحیم یار خان کے قصبے بھونگ میں واقع مندر پر حالیہ حملے اور اس سے پہلے کے ایسے ہی سینکڑوں واقعات کی ایک بنیادی وجہ اور توجیح سامنے آ گئی ہے، آپ حیران ہوں گے کہ ان شرمناک واقعات کے پیچھے محرکات کو طشت از بام کرنے کا ذریعہ کوئی انتہائی طاقت ور اعلیٰ عدالتی یا حکومتی کمیشن نہیں ہے کہ جس نے برسوں پر محیط سر توڑ کوششوں کے نتیجے میں ہزاروں گواہوں یا اعلی انتظامی یا پولیس افسروں کے بیانات ریکارڈ کر کے یہ وجہ ڈھونڈی ہو۔
انسانیت کے خلاف ان جرائم کی وجہ ڈھونڈنے میں کسی خاص علمی تحقیق یا عرق ریزی کی بھی ضرورت نہیں پڑی کہ یہ بھونگ مندر پر حملے کے محض دو ہفتوں بعد ہی 6 اگست کو اسلام آباد میں ہونے والی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ٹانگہ اتحاد ملی یکجہتی کونسل کی پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کی طرف پوچھے گئے محض چند سوالات کے نتیجے میں ہی سامنے آ گئی۔ صحافیوں نے ملی یکجہتی والوں سے مندر پر حملے کے حوالے سے پوچھا تو یکجہتی کونسل کے زعماء نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار تک نہ کیا بلکہ اس کی مذمت تک سے صاف معذرت کر لی۔
بقول ان کے 'ایسے واقعات کی وجہ اکثریت کے حقوق کا تحفظ ہے‘۔ اگر اقلیتوں کے حقوق ہیں تو سواد اعظم یا اکثریت کے بھی حقوق ہیں، 'جس کے لیے اکثریت اگر اقلیت پر چڑھ دوڑھتی ہے اور ان کی املاک اور عبادت گاہوں کو آگ لگا بھسم کردیتی ہے یا کھنڈر میں تبدیل کر دیتی ہے تو ایسا وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کرتی ہے‘۔
مندر پر حملے کے خوفناک واقعہ پر ملی یکجہتی کونسل کا استدلال محض ایک اشارہ ہے، یہ تو وہ آگ ہے، جسے دہکانے کی تیاریاں دہائیوں پہلے سے تواتر سے کی جاتی رہی ہے، نفرت بونے کا مسلسل عمل، نفرت کے سوداگروں کے لیے ہمیشہ سے منفعت بخش رہا ہے۔
ایک قرار داد مقاصد تھی جسے قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے 1948 میں منظور کیا۔ اس قرار داد کی منظوری کے لیے تب کی اکثریت نے اسمبلی میں اقلیت کے ساتھ وہی سلوک کیا جو آج ہمیں اپنے ارد گرد نظر آتا ہے۔
'یہود و ہنود‘ کی خود ساختہ سازشوں کی آڑ میں تاریخ اور درسی کتب کو ایسی شکل دی گئی کہ دشمن اور یہود و ہنود کو ایک دوسرے کا مترادف بنا دیا گیا۔ یہ اکثریت کی ابتدائی شناخت کے بحران کا معاملہ ہے، جو 74 سال میں تناور درخت بن چکا ہے۔
یہ اکثریت ہی تھی جس نے محض اپنی پہچان اور شناخت کے لیے اس قرار داد کو منظور کیا اور آئین کا لازمی حصہ بنا دیا، اس میں یہ تو کہا گیا کہ ملک کا آئین اور قانون قرآن و سنت کی روشنی میں بنے گا، مگر یہ نہ بتایا کہ قرآن کی قبولِ عام تفہیم کون مرتب کرے گا اور سنت پر کس فرقے، مسلک کی تشریح تسلیم ہو گی۔
اکثریت کے حقوق کی تلاش اور اقلیتوں کے حقوق کی نفی میں وقت گزرتا گیا اور اس دوران اُن جماعتوں نے کہ جنہوں نے پاکستان بنانے کی ببانگ دہل مخالفت کی تھی اور بانی پاکستان 'قائد اعظم‘ کو کافر اعظم تک قرار دینے کے فتوے جاری کر دیے۔
اب ذرا آگے بڑھیں تو 70 کی دہائی میں پہنچتے ہی معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان کی واحد سیکولر، لبرل اور اشتراکی نظریات کی حامی سیاسی جماعت اس نام نہاد اکثریت یا سواد اعظم کی دلالت کرتے ہوئے ایسے قانون نافذ کر دیتی ہے کہ لگتا ہے کہ جیسے ضیاء الحق کے مارشل لاء کو خوش آمدید کہنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
یہ بند وہ بند، سوال نہیں بس جو بتایا گیا ہے اسی کے سامنے سر جھکانا ہو گا، ضیاء الحق کے 11 سالہ دور میں تو پھر مذہب کے نام پر وہ کھیل کھیلا گیا کہ خدا کی پناہ۔ اور تو اور لفظ خدا بھی بظاہرغیر شرعی قرار پاہا اور 'خدا حافظ‘ بدل کر ’اللہ حافط‘ میں بدل کر سمجھا گیا کہ کہ دین کی خدمت کی جا رہی ہے۔ اب اس پر مزید کیا بات کریں اور کب تک کریں۔
اس ماضی کے تناظر میں اگر آج کے دور میں پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم و ستم نہ ہو تو اچھنبے کی بات ہو گی۔ شکر ہے کہ مندر پر حملے کا معاملہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے انتہائی جائز طور پر لیے گئے از خود نوٹس کی بدولت موجود ہے۔
ملی یکجہتی کونسل اور اس جیسی سوچ رکھنے والوں کو یہ بات بار بار بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے جھتوں یا برطانوی راج کے خاتمے پر حصے میں آنے والی فوج نے فتح نہیں کیا تھا۔
یہ ملک سیاسی اور آئینی عمل اور اس کے نتیجے میں کیے گئے فیصلوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا اور اسی سیاسی اور آئینی عمل کے نتیجے میں ہی قائم رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، یہ وہی راستہ ہے جس کا خوف ملی یکجہتی کونسل اور ان جیسے دیگر سواد اعظم والوں کو لاحق ہے۔