مودی حکومت کی نئی پہل: 'ایک ملک، ایک انتخاب' زیرغور
1 ستمبر 2023مودی حکومت نے ایک روز قبل ہی 18سے 22 ستمبر کے درمیان پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کے اعلان کرکے سب کو چونکا دیا تھا۔ اب 'ایک ملک، ایک انتخاب' کے امکانات تلاش کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کا اعلان کے بعد طرح طرح کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ آئندہ مہینوں میں ہونے والے کئی اہم ریاستی انتخابات کے مد نظر مودی حکومت ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اس خصوصی اجلاس کے دوران کچھ انتہائی اہم بل بھی منظور کراسکتی ہے۔
'ایک ملک، ایک انتخاب' کیا ہے؟
'ایک ملک، ایک انتخاب' سے مراد پورے ملک میں لوک سبھا (پارلیمنٹ) اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانا ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی مواقع پر اس موضوع پر بات کی ہے۔ یہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ بھی تھا۔
کیا جمہوریت صرف انتخابات منعقد کروانے کا نام ہے؟
مودی نے 2016 میں بیک وقت انتخابات کی وکالت کی تھی اور 2019 میں لوک سبھا انتخابات کے فوراً بعد انہوں نے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے آل پارٹی میٹنگ بھی بلائی تھی۔ حالانکہ کئی اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کو نظر انداز کر دیا تھا۔
'ہم کشمیر میں انتخابات کے لیے تیار ہیں'، مودی حکومت
وزیر اعظم مودی کی دلیل ہے کہ ہر چند ماہ بعد انتخابات کا انعقاد ملکی وسائل پر بوجھ ڈالتا ہے اور گورننس میں خلل کا سبب بنتا ہے۔
سابق بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو اس پر غور و خوض کرنے والی کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنا اس سلسلے میں مودی حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ کووند نے بھی ماضی میں مودی کے اس نظریے کی تائید کی تھی۔ انہوں نے سن 2017 میں بھارتی صدر بننے کے بعد اس خیال کی حمایت کی تھی۔
کیا یہ معاملہ آسان ہے؟
مودی حکومت اپنی دوسری میعاد کے اختتام کے قریب پہنچ رہی ہے اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا خیال ہے کہ اس معاملے کو مزید طول نہیں دیا جانا چاہئے اور چونکہ اس موضوع پر برسوں سے بحث ہو رہی ہے اس لیے اب اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فیصلہ کن طورپر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ "ایک ملک، ایک انتخاب" کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی اور پھر اسے ریاستی اسمبلیوں سے بھی منظور کرانا ہوگا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتی؟
حالانکہ یہ کوئی نیا تصور نہیں ہے اور 1952، 1957، 1962 اور 1967میں لوک سبھا اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوئے تھے۔ لیکن 1968-69 کے بعد بعض ریاستی اسمبیلوں کو مقررہ وقت سے پہلے تحلیل کردیے جانے کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا۔
اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا، "انہیں یہ بل لانے دیجئے، لڑائی جاری رہے گی۔" کانگریس کے ایک دیگر سینیئر رہنما ادھیر رنجن چودھری کا کہنا تھا، "ایک ملک، ایک انتخاب کے سلسلے میں مودی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ "
بھارت: کیا نیا اپوزیشن اتحاد مودی کو بے دخل کر سکتا ہے؟
بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ کا کہنا تھا کہ دراصل ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کو ایک قوم اور ایک پارٹی کا جنو ن ہے اور اپوزیشن کے متحد ہونے کے بعد سے وہ کافی پریشان ہے۔
بھارت: شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش؟
ڈی راجہ کا کہنا تھا، "ایک ملک، ایک الیکشن کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس پر کئی سالوں سے بحث ہو رہی ہے۔ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اسے' ایک قوم، ایک ثقافت'، 'ایک قوم، ایک مذہب'، 'ایک قوم، ایک زبان' کا جنون سوارہے۔' ایک ملک، ایک ٹیکس؛ اب ایک ملک، ایک انتخاب؛ پھر ایک قوم، ایک پارٹی؛ ایک قوم، ایک لیڈر۔ یہی وہ جنون ہے جس میں بی جے پی مبتلا ہے۔''