مودی حکومت کے خلاف بھارتی پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک
26 جولائی 2023
بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا، کے اسپیکر نے نئے اپوزیشن اتحاد (آئی این ڈی آئی اے۔ انڈیا) کی قیادت کرنے والی کانگریس اور ایک دیگر اپوزیشن بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) کی طرف سے مودی حکومت کے خلاف الگ الگ پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریکوں کو قبول کرلیا ہے البتہ ابھی اس پر بحث کے لیے وقت مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
بحث کے لیے منظور کرنے سے قبل اسے کم از کم 50اراکین کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ کانگریس کے پاس ضروری حمایت موجود ہے لیکن بی آر ایس کے صرف نو اراکین ہیں اور وہ 'انڈیا' اتحاد میں شامل نہیں ہے۔
بھارت: کیا نیا اپوزیشن اتحاد مودی کو بے دخل کر سکتا ہے؟
543 رکنی لوک سبھا میں حکمراں این ڈی اے اتحاد کے اراکین کی تعداد 331 ہے جب کہ اپوزیشن 'انڈیا' کے صرف 114اراکین ہیں۔ اس لیے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے ان کے پاس خاطر خواہ تعداد نہیں ہے۔
'عدم اعتماد تحریک کا مقصد مودی کو منہ کھولنے پر مجبور کرنا'
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ تحریک اس لیے پیش کی ہے تاکہ منی پور میں تقریباً تین ماہ سے جاری نسلی تشدد پر ایوان میں بحث کرائی جاسکے اور اس مسئلے پر وزیر اعظم نریندر مودی کو "منہ کھولنے کے لیے مجبور کیا جاسکے۔"
منی پور میں اکثریتی ہندو میتئی اور مسیحی فرقے سے تعلق رکھنے والے کوکی قبائیلوں کے درمیان 3 مئی سے جاری تشدد میں اب تک 150سے زیادہ افراد ہلاک اور 50000 سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ 250سے زائد گرجا گھروں اور عبادت گاہو ں کو آگ لگادی گئی ہے اور کروڑوں روپے کے اثاثے جل کر راکھ ہوچکے ہیں۔ دو کوکی خواتین کے برہنہ پریڈ کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم مودی پر دباو بڑھ گیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
منی پور کے واقعات پر اب امریکہ، برطانیہ کا بھی اظہار تشویش
اپوزیشن کا الزام ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اتنے سنگین معاملے پر اب تک جان بوجھ کر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ منی پور میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔
وزیر اعظم مودی نے 20جولائی کو پارلیمان کے مانسون اجلاس کے آغاز سے قبل پارلیمان کے باہر روایتی طورپر ایک بیان دیا تھا۔ تاہم اپوزیشن منی پور پر ان کے 36 سیکنڈ کے بیان سے مطمئن نہیں ہے اور پارلیمان میں بیان دینے کے مطالبے پر مصر ہے۔ اس معاملے پرپارلیمان میں گزشتہ کئی دنوں سے تعطل جاری ہے۔
عدم اعتماد کی صرف ایک تحریک اب تک کامیاب
مودی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی یہ دوسری تحریک ہے۔ پہلی تحریک 2018 میں پیش کی گئی تھی۔ جس پر حکومت کو 325 اور اپوزیشن کو 126ووٹ ملے تھے۔
بعض رپورٹوں کے مطابق بھارتی پارلیمان کی تاریخ میں آج تک عدم اعتماد کی 27 تحریکیں لائی گئی ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک کامیاب ہوئی۔ اپریل 1999 میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت ایک ووٹ سے عدم اعتماد کی تحریک ہارگئی تھی اور حکومت کو استعفی دینا پڑا تھا۔
حکومتی ایجنسیوں کا بے جا استعمال، اپوزیشن کا مودی پر الزام
بی جے پی رہنما اور پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی کا کہنا تھا، "مودی حکومت کی پہلی مدت میں بھی اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی لیکن 2019 کے الیکشن میں ہماری سیٹیں 282 سے بڑھ کر 303 ہوگئیں۔ انہیں عدم اعتماد کی تحریک لانے دیجئے اس مرتبہ ہم 350 سے زائد سیٹیں جیتیں گے۔"