مودی کا بلوچستان کارڈ، کتنا کامیاب رہے گا؟
1 ستمبر 2016
پاکستان کو ’سبق سکھانے‘ کی نئی حکمت عملی کے تحت بھارت کی طرف بلوچ قوم پرستوں کی حمایت کے حوالے سے نئے اقدامات کے طور پر سرکاری نشریاتی ادارے آل انڈیا ریڈیو سے بلوچی سروس شروع کرنے کے اعلان کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ اس سے بلوچستان کے عوام کو بھارتی پروپیگنڈہ کا سہارا مل جائے گا اور وہ خبریں بھی دنیا کو معلوم ہوسکیں گی جنہیں مبینہ طور پر پاکستانی میڈیا کے ذریعہ بلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے۔ تاہم تجزیہ نگار اس فیصلے کی افادیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے سابق سیکرٹری وویک کاٹجو کا کہنا ہے، ’’اس سے اصل مسئلے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی اور زمینی سطح پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا، البتہ اس سے بلوچ قوم پرستی کے کاز کو تقویت مل سکتی ہے اور بلوچستان میں بھارت کے تئیں خیرسگالی کے جذبات پیدا ہوں گے۔ یہ بہر حال ایک اچھی پیش رفت ہے۔‘‘
دوسری طرف سابق خارجہ سیکرٹری شیام سرن کا کہنا ہے، ’’پاکستان کو جوپیغام دیا گیا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ ہم اسے اس کے گھر میں ہی زک پہنچا سکتے ہیں۔‘‘ شیام سرن کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کام کافی سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس میں چین کے مفادات بھی شامل ہیں اور بیجنگ، بلوچستان سے ہوکر گزرنے والی چھیالیس بلین ڈالرز کی چین پاکستان اکنامک کوریڈور کی راہ میں کسی طرح کا رخنہ برداشت نہیں کرے گا۔ ٹریک ٹو کی میٹنگوں میں بھی چین یہ بات واضح کرچکا ہے کہ اس طرح کی کارروائی سے بھارت چین تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
سیاسی او رسفارتی تجزیہ نگار یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ بلوچستان کے حوالے سے مودی حکومت کا فیصلہ ٹیکٹیکل ہے یا اسٹریٹیجک۔
سابق خارجہ سیکرٹری للت مان سنگھ کا کہنا ہے کہ اگرپاکستان کی کشمیر پالیسی کے جواب میں بلوچ کاز کی حمایت کا ٹیکٹیکل فیصلہ کیا گیا ہے تو اس سے انہیں (مان سنگھ کو) مایوسی ہوگی کیوں کہ یہ وقت مضبوط مؤقف اختیار کرنے اور ٹھوس پالیسی تیار کرنے کا ہے۔ ’انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ منیجمنٹ‘ کے ڈائریکٹر اجے ساہنی بھی للت مان سنگھ کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی پرانی پالیسی سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا ہمیں اپنا مؤقف سخت کرتے ہوئے پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات کو زور شور سے اٹھانا چاہیے۔‘‘
فی الحال یہ کہنا تو مشکل یہ کہ بلوچی نشریات شروع کرنے سے بلوچ قوم پرستوں کو کتنا فائدہ ہوگا کیوں کہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں شارٹ ویو ریڈیو نشریات کی افادیت بحث کا موضوع ہے۔ تاہم ماضی میں آل انڈیا ریڈیو نے بنگلہ دیش میں شورش اور مجیب الرحمان کی گرفتاری کے بعد آزادی کی جنگ کو ہوا دینے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو نے اس وقت بھی اہم رول ادا کیا تھا جب میانمار میں جمہوریت نواز تحریک ابتدائی دنوں میں تھی اور فوجی حکومت نے خبرو ں کے تمام ذرائع پر پابندی عائد کردی تھی تو آل انڈیا ریڈیو نے متبادل ذریعہ فراہم کیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کار یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بلوچستان کی یاد آج کیوں آئی اور اگر انہیں بلوچ عوام کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا اتنا ہی درد ہے تودنیا کے دیگر حصوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورز یوں پر وہ کیوں نہیں بولتے۔ حتٰی کہ خود بھارت میں مسلمانوں اور دلتوں پر جو زیادتیاں ہو رہی ہیں اور اظہار رائے کی آزادی پر جس طرح قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، جس کی تازہ ترین مثال ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ہے ، اس پر وہ خاموش کیوں ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار حسن کمال کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’وزیر اعظم نریندر مودی کی بلوچستان سے متعلق پالیسی بھارت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی یا نہیں، اس بحث میں فی الوقت پڑنا اس لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کا جواب صرف وقت ہی دے سکتا ہے لیکن یہ بہر حال ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کی دو سال سے جاری بھارت پاکستان مذاکرات کی بابت پالیسی زخموں سے چُور، لہولہان پڑی ہے اور فی الحال نہ تو کوئی اس کا پرسان حال ہے اور نہ ہی اس کی جلد شفایابی کی کوئی امید ہے۔‘‘