مودی کو عارضی راحت تاہم وقار کو زبردست دھچکا
22 اپریل 2016بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کو کل بروز جمعرات اس وقت زبردست سبکی اٹھانا پڑی تھی جب اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کے مرکز کے حکم کو منسوخ کرتے ہوئے کانگریسی وزیر اعلی ہریش راوت کی حکومت کو بحال کر دیا تھا۔
مودی حکومت نے اس فیصلے کے سیاسی مضمرات کے مدنظر اس کے خلاف جمعہ سپریم کورٹ میں فوری سماعت کی درخواست دائرکی۔ اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے میڈیا کو بتایا، ’’سپریم کورٹ نے مرکز کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا، لہذا وہاں صدر راج برقرار رہے گا تاہم عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 27اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔‘‘
اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست میں صدر راج ہٹانے کا حکم دے کر نہ صرف مودی حکومت بلکہ ملک کی سیاسی قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔ عدالت عالیہ نے مودی حکومت کو سخت پیغام دیا کہ وہ وفاقیت کے جذبے کے ساتھ مذاق نہ کرے۔ اس نے مودی حکومت پر جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کا الزام بھی لگایا تھا۔ عدلیہ کی طرف سے انتظامیہ کے خلاف اتنا سخت تبصرہ غالباً پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔
ہائی کورٹ نے یہاں تک کہا کہ بھارتی صدر کا حکم کوئی راجہ کا فیصلہ نہیں کہ اس کا جائزہ نہ لیا جائے، جس طرح عدالت سے غلطی ہوسکتی ہے اسی طرح صدر سے بھی غلطی ممکن ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے کیونکہ اس نے مرکز کی طرف سے برطرف کردہ ریاستی حکومت کو بحال کردیا ہے۔ ماضی میں بعض عدالتی فیصلوں میں گوکہ صدر راج کو غلط تو قرار دیا گیا تھا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پرحکومتیں بحال نہیں ہو پائی تھیں۔
گو کہ یہ پہلا موقع نہیں جب مرکز کی کسی حکومت نے اپوزیشن کی ریاستی حکومت کے خلاف اپنے سیاسی فائدے کے لیے بھارتی آئین کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ریاست میں صدر راج نافذ کیا۔ صدر راج کا نفاذ بھارت میں ہمیشہ ایک متنازعہ معاملہ رہا ہے اور تمام حکومتوں نے اسے اپنے فائدے کے لیے صحیح یا غلط استعمال کیا ہے۔
سن 1954 میں پہلی مرتبہ اس کے استعمال کے بعد سے اب تک تقریبا ً125 مرتبہ اس کا صحیح یا غلط استعمال ہو چکا ہے۔ تاہم 1994ء میں سپریم کورٹ کی طرف سے کرناٹک کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایس آر بومئی کے معاملے میں فیصلے کے بعد اس کے غلط استعمال کا امکان بڑی حد تک محدود ہوگیا ہے۔
سپریم کورٹ کی نو ججوں کی بنچ نے 1994ء میں تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو گرانے کا راستہ ایوان سے ہو کر جاتا ہے اور اگر مرکز صدر راج نافذ کرنے کا مناسب جواز پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے اور غیر آئینی طریقے سے ایسا کرتا ہے تو عدالت ایسے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا حق رکھتی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دہرے کردار کا پردہ فاش کردیا ہے۔ جب وہ اپوزیشن میں تھی تو وفاقیت کی مسلسل دہائی دیتی رہی،جبکہ اقتدار میں آنے کے بعد خود وزیر اعظم نریندر مودی نے وفاقیت کی اپیل کی تھی، لیکن اتراکھنڈ میں ایک منتخب حکومت کو گرا کر اپنی حکومت بنانے کے لیے اس نے ساری حدیں پار کردیں۔
تاہم پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر ایم وینکیا نائیڈو کا حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مرکز قانون کی حکمرانی کا احترام کرتا ہے اور اتراکھنڈ میں عارضی طور پر صدر راج نافذ کیا گیا تھا کیوںکہ وہاں آئین کا بریک ڈاون ہوگیا تھا۔‘‘ مرکزی حکومت کی یہ بھی دلیل تھی کہ کانگریس کے نو ممبران اسمبلی کی بغاوت کے بعد ریاستی حکومت اقلیت میں آگئی تھی۔ لیکن بی جے پی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر واقعی ایسا تھا تو ایوان میں ووٹنگ سے سارا معاملہ صاف ہو سکتا تھا، آخر آناً فاناً چند گھنٹے کے اندر ہی صدر راج نافذ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
اسمبلی کے اسپیکر نے 28مارچ کو وزیر اعلیٰ ہریش راوت کو اکثریت ثابت کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس سے قبل 27مارچ کی رات میں ہی مرکز نے ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا تھا۔
کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان ایم۔ افضل کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ جمہوریت کی جیت ہے اور عدالت نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اس ملک میں آئین کا راج ہے۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے مرکز کو متنبہ کرتے ہوئے کہا، ’’وزیر اعظم مودی کو منتخب ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں مداخلت بند کرکے جمہوریت کا احترام کرنا چاہئے۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ کیجریوال اور مودی کے درمیان سیاسی رسہ کشی جاری ہے۔ بی جے پی کی حلیف شیو سینا کے ترجمان’سامنا‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’اس معاملے میں مودی حکومت تو ننگی ہوئی ہی، صدر کا وقار بھی مجروح ہوا ہے اور اس سے واضح ہے کہ مودی سرکارسے غلطی ہوئی۔ مودی حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے صدر راج نافذ کیا تھا لیکن عدالت نے یہ کوشش ناکام کردی۔‘
اب دیکھنا ہے کہ 27اپریل کو سپریم کورٹ کیا فیصلہ سناتی ہے، دوسری طرف اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ہریش راوت کو 29اپریل کو ریاستی ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے کہا ہے۔