1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موزمبیق میں دوبارہ خانہ جنگی

یوہانس بیک / امتیاز احمد23 اکتوبر 2013

موزمبیق میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ’رینامو‘ نے اکیس برس پہلے طے پانے والے امن معاہدے کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس گروپ کے موجودہ حکومت کے ساتھ مسلح تصادم کا آغاز ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1A589
تصویر: picture-alliance/dpa

موزمبیق کی موجودہ حکومت میں زیادہ تر وہ رہنما شامل ہیں، جو سن 1975 میں موزمبیق کی تحریک آزادی فریلیمو (FRELIMO) کا حصہ رہ چکے ہیں۔ پرتگال سے آزادی کے بعد سن 1976 سے 1992ء تک موزمبیق کے ملاوی سے لے کر ساحلی شہر بیارہ تک کے علاقے خانہ جنگی کے شکار رہے تھے۔ ان علاقوں کو ملانے والی سڑکیں اُس وقت خوف اور دہشت کی علامت تھیں۔ موجودہ اپوزیشن جماعت اور اُس وقت رینامو کے نام سے مشہور ہونے والی تحریک کے باغی ہر کسی کو نشانہ بناتے تھے۔

اب اکیس برس بعد یہ سڑکیں دوبارہ دہشت کی علامت بن سکتی ہیں کیونکہ اپوزیسن جماعت رینامو اور حکومتی جماعت فریلیمو کے مابین سن 1992ء میں طے پانے والا امن معاہدہ ختم ہو گیا ہے۔

Mosambik Führer der Oppositionspartei RENAMO Afonso Dhlakama 2013
اس حکومتی حملے میں آفونسو دھلاکاما بچ نکلنے میں کامیاب رہے تاہم انہوں نے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیاتصویر: Jinty Jackson/AFP/Getty Images

پیر اکیس اکتوبر کو حکومتی فوجیوں نے کاسابنانا نامی علاقے کے مضافات میں واقع Renamo کے ہیڈ کوارٹرز پر بمباری کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا۔ ایک برس پہلے رینامو کے باغیوں اور اپوزیشن جماعت کے سربراہ آفونسو دھلاکاما نے کئی سو مسلح افراد کے ہمراہ مرکزی موزمبیق کے پہاڑی علاقے گورونگوسا میں پناہ لے لی تھی۔ خانہ جنگی کے دوران بھی رینامو باغیوں کا ایک اہم اڈہ اسی علاقے میں تھا۔

اس حکومتی حملے میں آفونسو دھلاکاما بچ نکلنے میں کامیاب رہے تاہم انہوں نے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ رینامو باغیوں کے ایک ترجمان فرنانڈو ماسانگا کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارے ہیڈکوارٹرز پر حملہ اعلان جنگ ہے کیونکہ یہ حملہ آرمی نے کیا ہے۔‘‘

بحران کا اعلان

سن 2012ء میں امن معاہدے کی بیسویں سالگرہ منائی گئی تھی، جس کے بعد سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت رینامو اور حکومتی جماعت فریلیمو کے تعلقات میں کشیدگی دیکھنے میں آتی رہی۔ رواں برس اپریل میں بھی رینامو باغیوں کی جانب سے صوبہ صوفالا میں واقع ایک پولیس اسٹیشن کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس صوبے کو رینامو باغیوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ تب اس حملے میں کم از کم پانچ افراد مارے گئے تھے اور ایک بس کے علاوہ کئی ٹرکوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی علاقے سے ہی ملک کی ایک مرکزی اور اہم شاہراہ گزرتی ہے اور تب سے جنوبی اور شمالی موزمبیق کو ملانے والی اس سڑک پر سے گزرنے والے قافلوں کی حکومتی فوجی حفاظت کر رہے ہیں۔

سابقہ باغی گروپ اور موجودہ اپوزیشن جماعت رینامو کا صورت حال پر تنقید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ حکومتی معاملات میں فریلیمو کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے اور سیاسی فیصلوں میں رینامو کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔