موسم سرما ميں انسانی الميے سے بچنے کے ليے اقدامات میں تیزی
10 نومبر 2015رواں ہفتے کے آغاز پر برسلز ميں يورپی يونين کے وزرائے داخلہ کے ايک خصوصی اجلاس ميں پناہ گزينوں کے ليے رہائش گاہيں فراہم کرنے، مہاجرين کی مدد کے ليے خصوصی مراکز قائم کرنے اور يورپی بلاک کی بيرونی سرحدوں کی نگرانی سخت تر کرنے کے معاملات کو تیز رفتار بنانے کا فيصلہ کيا گيا ہے۔
وزرائے خارجہ کا يہ اجلاس يورپی يونين اور افريقی ممالک کی بدھ سے شروع ہونے والی سمٹ سے قبل پير کے روز منعقد ہوا۔ اجلاس ميں بنيادی طور پر ليبيا سے پناہ گزينوں کی آمد کو روکنے کے بارے ميں بات چيت ہوئی۔ يہ امر اہم ہے کہ يورپی يونين بحران سے نمٹنے کے معاملے ميں تنقيد کی زد ميں رہی ہے۔
اجلاس کے اختتام پر منعقدہ پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لکسمبرگ کے وزيز برائے اميگريشن ژان ايسل بورن نے کہا، ’’يورپی يونين کو موسم سرما کی آمد کے ساتھ کسی انسانی الميے سے بچنے کے ليے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘ ايسل بورن کے بقول لوگوں کو سمندروں ميں بچانے کی ضرورت ہے اور انہيں بلقان ممالک ميں سردی کے سبب مرنے کے ليے نہيں چھوڑا جا سکتا۔‘‘ واضح رہے کہ ان دنوں يورپی يونين کی صدارت کے ذمہ داری لکسمبرگ نے سنبھال رکھی ہے۔
اجلاس ميں شامل وزراء نے اتفاق کيا کہ تمام ممالک مہاجرين کی منتقلی کے طے شدہ يورپی منصوبے پر جلد عملدرآمد کو يقينی بنائيں گے۔ يہ فيصلہ بھی کيا گيا ہے کہ پناہ گزينوں کی منتقلی کے عمل کو تيز تر بنانے کے ليے يونان اور اٹلی ميں مراکز قائم کيے جائيں گے جو وہيں مستحق پناہ گزين اور معاشی مقاصد کے ليے يورپ آنے والے تارکين وطن کی تفريق کا کام سر انجام ديں گے۔ يورپی يونين کے منصوبے کے تحت ايسے متعدد ’ہاٹ اسپاٹس‘ نومبر کے اواخر تک فعال ہونے چاہييں۔
ژاں ايسل بورن نے البتہ تنبيہ کی ہے کہ صرف ہاٹ اسپاٹس يہ کام سر انجام اس ليے نہيں دے پائيں گے کيونکہ کبھی کبھار ايک دن ميں دس ہزار کے قريب نئے پناہ گزينوں کی آمد بھی ہوتی ہے اور اتنی بڑی تعداد ميں لوگوں کا اندراج مشکل کام ہے۔ اسی ليے انہوں نے ’پروسيسنگ‘ مراکز کے قيام کی تجويز بھی دی ہے، جنہيں بلقان ممالک ميں قائم کيا جا سکتا ہے۔ تاہم ايسل بورن نے تسليم کيا کہ پناہ گزينوں کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے ليے کوئی ’جادوئی نسخہ‘ دستياب نہيں۔
بدھ سے جنوبی يورپ کے ملک مالٹا ميں يورپی يونين اور افريقی ليڈران کی ايک سمٹ شروع ہو رہی ہے جس ميں غير مستحق قرار ديے جانے والے افريقی پناہ گزينوں کی ملک بدری کے موضوع پر بھی بات چيت متوقع ہے۔