موسمياتی تبديليوں، کسانوں کی خود کشی اور چائلڈ ليبر کا تعلق؟
14 نومبر 2019انيس سالہ رينو ونکھاڈے يہی سن کر بڑی ہوئی تھی کہ زراعت کے پيشے سے وابستہ اس کے خاندان کے حالات ميں بہتری صرف اور صرف تعليم ہی کی بدولت ممکن ہے۔ پھر سن 2016 ميں اس کے والد ديو راؤ چل بسے۔ انہوں نے ساڑھے چھ سو يورو کے برابر ماليت کا ادھار ليا تھا جو کئی سال تک فصل تباہ ہونے کی وجہ سے وہ نہ اتار سکے اور تھک ہار کر انہوں نے زہر پی ليا۔ والد کے گزر جانے کے بعد بھی رينو نے تعليم نہ چھوڑی اور وہ آگے بڑھتی رہی ليکن اب تين سال بعد اس نے بيچلر آف آرٹس کی ڈگری نا مکمل چھوڑ دی ہے۔ رينو اپنی تعليم اور ٹرانسپورٹ پر آنے والے سالانہ پينتاليس يورو کے برابر ماليت کے اخراجات نہيں اٹھا سکتی۔
''ميں ہميشہ ہی سے آگے پڑھنا چاہتی تھی ليکن اب بات ہماری بقا پر آن پہنچی ہے۔ ميری والدہ کو کھيتوں ميں ميری مدد درکار ہے تاکہ ہم کم از کم اتنا کما سکيں کہ روٹی کھا سکيں،‘‘ رينو ونکھاڈے نے بتايا۔ مغربی بھارتی رياست مہاراشٹرا ميں ودربھ کے انتہائی خشک خطے ميں ايسی کہانياں عام ہيں۔
بھارت ميں سن 1997 سے لے کر سن 2012 کے درميان ڈھائی لاکھ سے زائد کسان خود کشی کر چکے ہيں۔ سن 2016 سے وزير اعظم نريندر مودی کی حکومت ملک ميں خود کشی کرنے والے کسانوں کے حوالے سے ڈيٹا جاری ہونے کے عمل کو مبينہ طور پر رکواتی آئی ہے۔ 2018ء ميں البتہ پارليمان کے ايوان زيريں ميں بتايا گيا کہ 2016ء ميں 11,370 کسانوں نے خوش کشی کی، جن ميں سے 3,661 کا تعلق مہاراشٹرا سے تھا۔ ماہرين کا ماننا ہے کہ اس مسئلے ميں قابل بھروسہ ڈيٹا کی عدم دستيابی رکاوٹ بن رہی ہے اور ايسے ميں متاثرين کی مدد کے ليے حکومت سے مدد مانگنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
بھارت ميں موسمياتی تبديليوں کے سبب ماحول ميں بہت سی تبديلياں آ رہی ہيں۔ کبھی ضرورت سے زيادہ بارش، تو کبھی خشک سالی۔ ايسے غير متوقع موسمی حالات کے نتيجے ميں ديو راؤ جيسے بہت سے کسانوں کی فصليں تباہ ہو جاتی ہيں اور نتيجتاً ان پر قرض چڑھتا جاتا ہے۔ دو سال قبل کرائے گئے ايک مطالعے کے مطابق بھارت ميں خود کشی کے ساٹھ ہزار سے زائد واقعات کی کڑياں در اصل کلائميٹ چينج يا موسمياتی تبديليوں ہی سے ملتی ہيں۔ تاہم يہ معاشی مسئلہ بڑی تيزی سے معاشرے اور سماجيات کو بھی متاثر کر رہا ہے، جس کی ايک مثال رينو ونکھاڈے کی کہانی ہے۔ رينو ايسی واحد لڑکی نہيں جس کی تعليم متاثر ہوئی ہو، ايسی متعدد لڑکياں اور لڑکے ہيں جہيں حالات سے ہار ماننی پڑی۔ علاوہ ازيں اسی سبب چائلڈ ليبر بھی بڑھ رہی ہے۔
'چائلڈ رائٹس اينڈ يو‘ (CRU) نامی ايک غير سرکاری تنظيم کے اندازوں کے مطابق مہاراشٹرا ميں ملازمت کرنے والے ساٹھ فيصد سے زائد بچے زراعت کے شعبے سے وابستہ ہيں۔ ايک اور غير سرکاری تنظيم سے وابستہ سماجی کارکن راہول بياس کا کہنا ہے، ''ايسے حالات ميں کم عمر بچوں سے کام کرانا ايک ضرورت بن جاتی ہے۔ کئی خاندانوں کو اپنی بقاء کے ليے بچوں کو مزدوری کی طرف دھکيلنا پڑتا ہے۔‘‘
رينو ونکھاڈے بتاتی ہے کہ والد کے گزر جانے کے بعد آمدنی مشکل تھی۔ اسے ايک دن کے کام کی اجرت ڈيڑھ يورو سے بھی کم ملتی تھی۔ پھر اس کی والدہ منگلا کو اپنی بڑی بيٹی کو بياہنے کے ليے ساڑھے چھ سو يورو کے برابر روپے کا قرض لينا پڑا۔ ساتھ ہی غير متوقع موسمی حالات کے سبب مسلسل دو سال فصل تباہ ہوتی رہی۔ منگلا بتاتی ہے، ''ميں چاہتی تھی کہ ميری بيٹی پڑھے تاہم مجھے قرض چکتانے ميں دقت پيش آ رہی ہے اور اسی ليے مجھے رينو سے کہنا پڑا کہ وہ پڑھائی چھوڑ کر ميری مدد کرے۔‘‘
ع س / ک م، نيوز ايجنسياں