موسمیاتی تبدیلیاں اور معدومیت زمین کے لیے خطرے کی بڑی گھنٹی
16 جنوری 2015یہ رپورٹ جمعرات 15 جنوری کو جاری کی گئی ہے۔ 18 بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے جنگلوں کے تیزی سے کٹاؤ اور پودوں کی نشونما کے لیے استعمال ہونے والی کھادوں میں نائٹروجن اور فاسفورس کے استعمال کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک سارہ کورنل نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں یہ تو نہیں سمجھتی کہ ہم اپنی زمین کو تباہ کر چکے ہیں مگر ہم ایک مشکل دنیا ضرور پیدا کر رہے ہیں۔‘‘ سارہ کا تعلق ’اسٹاک ہوم ریزیلیئنس سینٹر‘ سے ہے جس نے ’’اے گائیڈ ٹو ہیومن ایکسپلوریشن آف دی ارتھ‘‘ نامی پراجیکٹ کی سربراہی کی ہے۔
طبی جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق، ’’چار معاملات میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرحدیں پار کی جا چکی ہیں جن کی وجہ سے انسانیت خطرے کے زون میں داخل ہو گئی ہے۔‘‘ ان میں موسمیاتی تبدیلی، بعض جانوروں کی نسلوں کی معدومیت، زمین کے استعمال میں تبدیلی اور نامیاتی کھادوں کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی۔
اس رپورٹ کے مطابق ہمارے سیارے زمین کو متاثر کرنے والی کُل نو چیزوں کا جائزہ لیا گیا۔ تازہ پانی کا استعمال، سمندروں کی تیزابیت اور اوزون کی تہہ کا خاتمہ ابھی تک محفوظ حدود کے اندر ہیں۔ تاہم فضا میں موجود آلودگی کا معاملہ ایسا ہے جس پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں اور جانوروں کی بعض نسلوں کی معدومیت دو ایسی چیزیں ہیں جن پر سب سے زیادہ تحفظات ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہماری فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار ایک ملین میں 397 حصے تک پہنچ گئی ہے۔ اس اسٹڈی میں گرین ہاؤس گیسوں میں سے سب سے اہم اس گیس کی آخری حد 350 پارٹس پر ملین مقرر کی گئی تھی۔
رواں برس یعنی 2015ء کے آخر میں دنیا بھر سے قریب 200 ممالک کی حکومتیں پیرس میں ملیں گی جس کا مقصد عالمی حدت کو ایک حد میں رکھنے پر اتفاق رائے قائم کرنا ہو گا۔ عالمی حدت پر قابو پا کر ہی دنیا کو سیلاب، خشک سالی، بڑھتی گرمی اور سطح سمندر میں اضافے جیسے خطرات سے بچایا جا سکتا ہے۔ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار کا فضا میں اخراج کو قرار دیا جاتا ہے۔