موسیقی کی مذہبی اہمیت
30 جون 2009سماع اور ذکر کی روایت ہو یا گرجوں میں گائے جانے والے کورس، ٹرمپٹ کا استعمال ہو یا اورگل اور نَے کی صدا، یہ سب کچھ ایک خاص اثر رکھتا ہے۔
جرمن دانشوروں، مستشرقین اور ماہرین دینیات نے اس بارے میں بہت گہری ریسرچ کی ہے۔
یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے علاوہ بدھ مت، کنفیوشیت، شمن پرستی، ہندو مت اور دیگر چھوٹے بڑے مذاہب میں بھی موسیقی کسی نہ کسی صورت میں غیر معمولی کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس بارے میں جرمن شہر بوخم کی معروف یونیورسٹی کے انسانی علوم کے شعبے کے ماہرین نے مختلف پہلوؤں پر ریسرچ کی ہے۔ اِس یونیورسٹی میں حال ہی میں اِس موضوع پر ایک ورکشاپ کا انعقاد ہوا۔ اس کے منتظم اور ماہر امور مذہبی موسیقیPhilip Reichling مختلف مذاہب میں موسیقی کے استعمال اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: ’’موسیقی مذہب کو پر کشش بناتی ہے۔ اس کے ذریعے لوگ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے مذہب سے بھی قریب آتے ہیں اور یہ کشش انسانی احساس اور جمالیاتی حس کو بڑے لطیف انداز میں متاثر کزتی ہے۔ قبل اس کے کہ کوئی بھی عقیدہ یا مذہب زبانی یا تحریری الفاظ کی شکل میں جلوہ نما ہو، موسیقی کہیں محض آلات سے نکلنے والی صداؤں اور کبھی میوزک کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی کی شکل میں انسانی روح اور حس کو چھو لیتی ہے۔‘‘
جرمن ماہرین کے خیال میں موسیقی دونوں طرح سے یعنی گائیگی یا پھر فقط سازینہ، دونوں صورتوں میں بہت طاقت رکھتی ہے۔ یاسمین گؤکپینار عرب اور گریگورین یعنی پوپ گریگور کی موسیقی کے ایک دوسرے پر اثرات کے موضوع پر تحقیق کر رہی ہیں۔ انکا کہنا ہے: ’’میرا خیال ہے کہ موسیقی ایک دوسرے کو قریب سے جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ میری نگاہ میں بین الثقافتی انضمام کو ممکن بنانے کے لئے موسیقی سے اچھا کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
یاسمین کے والد ترک ہیں اور والدہ جرمن۔ انھوں نے جرمن معاشرے میں جنم لینے اور پروان چڑھنے کے باوجود علوم شرقی میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ یاسمین عیسائیت اور مذہب اسلام میں حمد و ثنا اور گیت و موسیقی کی روایت پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ بہت سے دیگر یورپی خاص طور سے جرمن ماہرین کی طرح یہ بھی اذان کی آواز کو موسیقی کی ایک قسم سمجھتی ہیں۔ کیا اذان کی آواز اور گرجے کے گھنٹوں کی صدا کا ایک دوسرے سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ یاسمین کہتی ہیں: ’’مقصد کے اعتبار سے اذان اور گرجے کی گھنٹی مماثلت رکھتی ہے۔ عیسائی چرچ کے گھنٹوں کو نہ صرف وقت کا پتہ لگانے کے لئے بلکہ عبادات کے اوقات کی طرف نشاندہی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اذان کا بھی یہی مقصد ہے یعنی لوگوں کو نماز کی طرف بلانا۔ تاہم گرجے کے گھنٹوں میں آواز شامل نہیں ہوتی، الفاظ نہیں ہوتے۔ جبکہ اذان دن میں 5 بار عقیدے کی بنیاد کو دہراتی ہے یعنی یہ کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں۔ یہ واضح فرق ہے، کلیساؤں کے گھنٹوں اور مساجد سے آنے والی اذان کی آواز میں۔‘‘
ان دونوں کے ساتھ ساتھ یہودیت کی پرانی روایات میں بھی اسی قسم کی چیزیں شامل تھیں ۔ یاسمین کہتی ہیں: ’’اذان کی آواز میں جو اثر ہے، اسے وہی محسوس کر سکتا ہے، جو مسلمان ہو۔ تاہم ایک محقق کی حیثیت سے تو اذان اور کلیسا کے گھنٹوں دونوں کو عبادت کی طرف متوجہ کرنے کے دو مختلف طریقے ہی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اگر پیغمبر اسلام کا مقصد محض مسلمانوں کو نماز کی طرف بلانا ہوتا تو وہ کوئی اور طریقہ بھی اختیار کرسکتے تھے۔ مثلاً ٹرمپٹ بجا کر، جیسا کہ اسلام سے کہیں پہلے یہودی کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کا مقصد صرف یہ نہیں تھا۔ لیکن میرے خیال میں زیادہ دلچسپ امر یہ تحقیق ہے کہ کیا موسیقی کے آلہء جات کے بغیر دی جانے والی صدا کو موسیقی کہا جا سکتا ہے؟ بالکل کہا جا سکتا ہے۔ اذان جسے مسلمان موسیقی کا حصہ نہیں کہتے، دراصل موسیقی ہی ہے۔ اس میں ایک نغمگی، ایک ترنم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اسلامی ممالک مثلاً مصر میں قران کی تلاوت مقامات کے ساتھ کی جاتی ہے۔ مقامات عرب ثقافت میں روحانی موسیقی کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قران کی تلاوت دنیاوی موسیقی سے بالکل مختلف ہے تاہم اس کے پڑھنے کے انداز میں ایک خاص موسیقیت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح گریگورین حمدیہ گیت بھی ہیں۔ ایک خاص جگہ وقفہ کرنا، کسی الفاظ کو ایک ہی ردھم سے ادا کرنا وغیرہ۔ پورے قران کی قرأت ایک مقام میں نہیں بلکہ حصوں میں کی جاتی ہے۔ اسی انداز سے گریگورین حمدیہ گیت بھی گائے جاتے ہیں۔ تاہم عیسا ئیت میں مقدس کتاب بائبل کو قرآن کی طرح شروع سے آخر تک نہیں پڑھا جاتا بلکہ مخصوص حصے پڑھے جاتے ہیں۔ لیکن یہودیوں کے ہاں بھی مسلمانوں کی طرح ان کی مقدس کتاب تورات کو شروع سے آخر تک پڑھنے کی روایت پائی جاتی ہے تاہم مختلف لہجے اور آہنگ کے ساتھ۔‘‘
جرمن دانشوروں اور ماہرین نے اسلامی نظریہء تصوف پر کافی کام کیا ہے۔ روحانی موسیقی اور مراقبے کے ضمن میں مغرب میں سب سے زیادہ شہرت مولانا جلال الدین رومی کو حاصل ہے۔ یاسمین کے بقول: ’’ہر مذہب میں تصوف کا نظریہ اور صوفی طریقت پائی جاتی ہے۔ عیسائیوں میں بھی اس کی روایت قدیم ہے۔ اس کی بہت زیادہ تفصیلات تو مجھے معلوم نہیں ہیں تاہم میں یہ جانتی ہوں کہ کرسچن مونکس یا راہب، جنہیں درویش بھی کہا جا سکتا ہے، یہ بھی مراقبے میں ورد کرتے ہیں۔ کبھی کبھی موسیقی کی دھن سنتے اور خاموشی سے عبادت کرتے ہیں۔ خدا کے ذکر میں ڈوب جاتے ہیں۔ مسلم صوفیاء میں بھی بالکل یہی تصور پایا جاتا ہے، خدا کا قرب حاصل کرنے اور اس کی یاد میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجانے کا۔ انکے ذکر کی محافل کو عیسائی راہبوں کے مراقبے سے ملتا جلتا قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘
مذہبی موسیقی میں استعمال ہونے والے آلات کی ایجاد مشرق میں ہوئی ہو یا مغرب میں، یہ آلات بڑی حد تک دونوں مذہبی ثقافتوں کی پہچان بن گئے ہیں۔ پروفیسر کرسٹیان آہرنس نے عیسائیت اور اسلام دونوں کی ثقافت میں مرکزی حیثیت رکھنے والے موسیقی کے آلات کی ایجاد اور ان کے ارتقاء پر ریسرچ کی ہے۔ کس آلے کو موسیقی کی ملکہ کہا جاتا ہے۔ کرسٹیان آہرنس کہتے ہیں: ’’مغربی دنیا میں ارغنون یا اورگن کو موسیقی کے آلات کی ملکہ کہا جاتا ہے۔ تاہم اسے یہ نام اس وقت دیا گیا، جب یہ چرچ کی موسیقی کا اہم ترین آلہ بنا۔ یعنی قرون وسطیٰ سے ۔ تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی آلے کو موسیقی کی ملکہ قرار دینے کا پیمانہ کیا ہے۔ اسے ثقافتی پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ جیسے دوسری ثقافتوں میں اورگن کی جگہ دوسرے آلے کو موسیقی کے آلہ جات کی ملکہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً اسلامی ثقافت میں، خاص طور سے مولانا روم کی تصوف کی موسیقی میں نَے کو موسیقی کے آلات کی ملکہ کی حیثیت حاصل ہے۔‘‘
اس ساری بحث میں ایک دلچسپ موضوع یہ ہے کہ جرمن ماہرین اور دانشور مذہبی موسیقی اور موسیقاروں کو طاقت کے اظہار کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ پروفیسر کرسٹیان آہرنس: ’’مختلف معاشروں اور ثقافتوں میں مذہبی موسیقی اور موسیقاروں کو طاقت کے اظہار کے ایک موثر ذریعے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ کس کے پاس موسیقی کے کتنے آلات ہیں اور کس کے کتنے موسیقار ہیں، یہ تمام چیزیں اہمیت کی حامل ہیں۔ خاص طور سے جنگ کے زمانے میں یہ مخالفین کو اپنی قوت کے اظہار سے خوفزدہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ بنتا ہے۔ مثلاً سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترکوں نے اکثر میدان جنگ میں بہت بلند آواز والی موسیقی سے اپنے دشمنوں کو خوفزدہ کیا۔ اس دور کی تاریخ بتاتی ہے کہ ترکوں کی خاص قسم کی موسیقی نے کئی مخالف سپاہیوں کو اس حد تک خوفزدہ کیا کہ وہ فرار ہو گئے۔‘‘
مغربی عیسائی ثقافت میں مذہبی موسیقی کی جان سمجھے جانے والے موسیقی کے آلے اورگن کو اسلامی ثقافتوں میں مقبولیت کیوں حاصل نہ ہو سکی؟ اس بارے میں کرسٹیان آہرنس کہتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ عرب دنیا میں اورگن غیر مقبول نہیں ہے۔ عرب اسے ایک عرصے سے جانتے ہیں۔ تاہم جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا ویسے ویسے مسلم معاشروں میں اورگن کو ترک کیا جانے لگا اور یہ آلہ مشرقی دنیا سے مغربی یورپی ممالک کی طرف آگیا۔ ‘‘
کیا ایسے آلات بھی پائے جاتے ہیں، جو تینوں ابراہیمی مذاہب کے مابین مماثلت ظاہرکرتے ہیں: ’’موسیقی کا ایسا کوئی آلہ نہیں ہے، جسے یہودی، عیسائی اور اسلامی مذہبی موسیقی میں یکساں استعمال کیا جاتا ہو۔ تاہم ان تینوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے، پیتل کے بنے ہوئے سازوں کا استعمال۔ یہودی شوفار بجا کر عبادت کی طرف بلاتے ہیں۔ عیسائیوں کے یہاں اورگن بجانے کا رواج ہے جبکہ اسلامی ثقافت میں زیادہ ترمذہبی موسیقی میں نَے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تینوں آلات سانس کے زور سے بجائے جانے والے سازوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ تینوں کا مقصد خدا کے وجود کے اقرار کا اظہار ہے۔‘‘
یہودیت، عیسا ئیت اور اسلام کے علاوہ بدھ مت، کنفیوشیت، شمن پرستی اور ہندو مت جیسے مذاہب میں بھی تصوف اور مراقبے کے لئے خاص قسم کی موسیقی کا استعمال عام ہے۔
تحقیق و تحریر : کشور مصطفیٰ
ادارت : امجد علی