موسیقی: غزہ کے بچوں کے ذہنی صدمات دور کرنے کی کوشش
20 جولائی 2015غزہ میں قائم ’ٹائمر انسٹیٹیوٹ فار کمیونٹی کلچر‘ کے ایماء پر شروع کی جانے والی اس سرگرمی کا مقصد ذہنی اور جذباتی صدموں، خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار بچوں کو موسیقی، گلو کاری اور کہانیاں سنا کر ان کی زندگی میں خوش امیدی کا رنگ بھرنے کی کوشش کرنا ہے۔
نوجوان موسیقاروں کا گروپ
سارہ عبدالرحمٰن اور پانچ دیگر موسیقار بچوں کے ایک گروپ کے سامنے اپنے بستوں سے موسیقی کے آلات نکال رہے ہیں۔ ایک نے ڈرم نکالا، دوسرے نے وائلن، تیسرے نے کی بورڈ زیمن پر رکھتے ہوئے بچوں سے پوچھا،’’ بچوں آپ سب کیسے ہیں؟‘‘۔ سارہ نے کہا،’’ ہم یہاں آپ کے ساتھ کھیلنے آئے ہیں۔ ہم سب مل کر خوبصورت نغمے گائیں گے، آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘۔
23 سالہ سارہ عبدالرحمٰن اور اُس کے میوزک گروپ کے دیگر اراکین ہر روز صبح اپنی پشت پر اپنے اپنے موسیقی کے آلات لادے غزہ کے تباہ شُدھ علاقوں کی ٹوٹی پھوٹی، ناہموار سڑکوں اور مسمار عمارتوں کے کھنڈروں سے گزرتے ہوئے صدموں کے شکار بچوں تک پہنچتے ہیں۔ ان بچوں کو موسیقی اور نغمے اور کہانیاں سنا کر اُن کے اداس چہروں پر مسکراہٹ لانے اور اُن کی ویران آنکھوں میں زندگی کا رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سرگرمی کو ’ پلے اینڈ جوائے‘ کا نام دیا گیا ہے۔
موسیٰ طاؤف سارہ عبدالرحمٰن کے موسیقی کے بینڈ میں بربط بجاتے ہیں اور ’ٹیمرانسٹیٹیوٹ فار کمیونٹی کلچر‘ کے میوزک ٹیم کے لیڈر بھی ہیں۔ ان کا 2014 ء میں ہونے والی غزہ کی جنگ کے بارے میں کہنا تھا، ’’غزہ کی جنگ کے مادی نقصانات تو بالکل واضح اور مرئی ہیں اور ان کا ازالہ جلد یا بدیر ممکن ہے تاہم اس جنگ سے متاثرہ بچوں کے جسموں پر نشانات ہمیشہ دکھائی نہیں دیتے لیکن بہت گہرے نفسیاتی اور جذباتی نقوش چھوڑ جاتے ہیں‘‘۔
غزہ کی جنگ کی لائی ہوئی تباہی
اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس غزہ کی 51 روزہ جنگ میں 551 بچے ہلاک اور دوہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے جبکہ جنگ کے ہولناک واقعات کے نتیجے میں غزہ کے قریب تین لاکھ چھبیس ہزار بچے شدید ذہنی اور نفسیاتی دباؤ اور صدمے کا شکار ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر بچوں کا کوئی مناسب علاج معالجہ بھی نہیں ہو رہا ہے۔
غزہ کے منٹل ہیلتھ پروگرام یا ذہنی صحت سے متعلق پروگرام سے منسلک بچوں اور آغاز شباب کے مرحلے میں داخل ہونے والے بچوں کے ایک نفسیاتی ماہر سامی اویدا کا کہنا ہے کہ ان کے مرکز اور دیگر ہیلتھ پروگراموں اور اداروں نے چند بچوں کی دماغی صحت کی بحالی میں کامیابی حاصل کی ہے تاہم حالیہ ہفتوں میں ایک عسکری گروہ کی طرف سے اسرائیل پر چھ راکٹ داغے گئے، جس کے جواب میں اسرائیل نے بڑا فضائی حملے کیا۔ ان واقعات نے تھوڑی بہت نفسیاتی بحالی کی طرف گامذن بچوں کے ایک بار پھر خوف و ہراس کے اُسے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے جس سے باہر نکالنے کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی مٹی میں مل کر رہ گئیں۔