موہنجو ڈرو: دریائے سندھ تاریخ دہرا نہ دے
6 اگست 2010سندھ کے قدیم تاریخی ورثے موہنجو ڈرو یعنی ’مُردوں کا ٹیلا‘ کے قریب دریائے سندھ سے چار لاکھ کیوسک کا ایک سیلابی ریلا پہلے ہی گزر چکا ہے۔ تاہم اس ریلے سے موہنجو ڈرو کو کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچا۔ دریائے سندھ دنیا کے بڑے اور قدیم دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اسی دریا کے کنارے کسی دور میں تاریخی شہر موہنجو ڈرو بھی آباد ہوا کرتا تھا۔ تین ہزار سال قبل از مسیح کے دور کے اس شہر کی قدیم باقیات سے واضح ہے کہ اس دور میں بھی اس شہر کو متعدد مرتبہ دریائے سندھ کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کم از کم سات مرتبہ اس شہر کو سیلاب کے بعد از سرنو تعمیر کیا گیا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ غالباﹰ آخری مرتبہ بھی یہ شہر دریائے سندھ میں آنے والی شدید تغیانی سے ہی تباہ ہوا تھا۔
سن 1980ء میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ثقافت (یونیسکو) نے چھ سو ایکٹر اراضی پر واقع موہنجو ڈرو کی قدیم باقیات کو ایک عظیم انسانی ورثہ قرار دیا تھا۔ اس شہر کو دنیا کا سب سے زیادہ منصوبہ بندی سے تعمیر کیا گیا قدیم شہر بھی قرار دیا گیا تھا۔ یہ دنیا کا واحد تاریخی شہر ہے، جہاں اس دور میں بھی عمارتوں کی تعمیر میں پکی اینٹیں استعمال کی جاتی تھیں اور گلیوں میں نکاسی آب کے لئے ڈھکی ہوئی نالیوں کا انتظام کیا جاتا تھا۔ اس شہر کو دریائے سندھ کا پہلا شہری علاقہ بھی گردانا جاتا ہے۔
سن 1922ء میں دریافت ہونے والے اس قدیم انسانی ورثے کے تحفظ کے حوالے سے سن 1974ء میں پاکستان نے یونیسکو سے اپیل کی تھی، جس کے بعد اس عالمی ادارے نے موہنجو ڈرو کے تحفظ کے لئے اپنے اقدامات کا آغاز کیا تھا۔ سن 1997ء تک یونیسکو نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے موہنجو ڈرو کے تحفظ اور بقا کے لئے حاصل کردہ تقریبا آٹھ ملین ڈالر کی لاگت سے بڑے پیمانے پر سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ان حفاظتی اقدامات میں اس عمل کا بھی خیال رکھا گیا تھا کہ دریائے سندھ میں آنے والے کسی بھی ممکنہ سیلاب سے اس عظیم انسانی اثاثے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس کے بعد تحفظ کی ذمہ داری یونیسکو نے صوبہ سندھ کی انتظامیہ کے سپرد کر دی تھی۔
یونیسکو کی جانب سے موہنجو ڈرو کے تحفظ کے لئے کئے گئے حفاظتی اقدامات میں دریائے سندھ میں آنے والے کسی سیلابی ریلے سے اس شہر کو بچانے کے لئے دریا کے قریبی پشتوں کو بلند اور مضبوط بنایا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سن 1992ء میں آنے والے سیلابوں کے دوران دریائے سندھ سے 13 لاکھ کیوسک کا ایک سیلابی ریلہ گزرنے کے باوجود موہنجو ڈرو محفوظ رہا تھا۔ اس مرتبہ صوبائی حکومت کے اہلکار، فوج اور ریجنرز کے دستوں سمیت بڑی تعداد میں امدادی کارکن موہنجو ڈرو کے قریبی علاقے میں دریائے سندھ کی نگرانی پر مامور ہیں تاکہ کسی بھی دریائی بند کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کا فوری تدارک کر کے موہنجو ڈرو کو کسی بھی طرح کے مادی نقصان سے بچایا جا سکے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یونیسکو کی جانب سے موہنجو ڈرو کے تحفظ کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات خاصی حد تک کافی رہے اور یہ شہر کسی بڑی تباہی سے قدرے زیادہ محفوظ بھی ہو گیا۔ لیکن بعض ماہرین ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ ملک میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں اور انتہائی تباہ کن سیلابوں سے، جہاں سندھ کے دیگر علاقے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دریائے سندھ اپنے پشتے توڑتا ہو ایک مرتبہ پھر پرانی کہانی دوہرا دے اور موہنجو ڈرو کے رہے سہے آثار بھی اپنے پانیوں کے ساتھ بہا کر لے جائے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک