مُلا برادر رہا، امن عمل میں مدد کی امید
21 ستمبر 2013اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پاکستانی حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ ملا عبد الغنی برادر کو آج ہفتے کو قبل از دوپہر آزاد کر دیا گیا۔ افغان حکومت کافی عرصے سے پاکستان سے مطالبہ کر رہی تھی کہ ماضی میں طالبان کا نائب سربراہ رہ چکنے والے ملا برادر کو رہا کیا جائے۔ ملا برادر کو پاکستانی حکام نے مبینہ طور پر امریکی سی آئی اے کے ایجنٹوں کے ساتھ مل کر کی گئی ایک کارروائی کے نتیجے میں سن 2010 میں جنوبی پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی سے گرفتار کیا تھا۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستانی انٹیلیجنس اور سکیورٹی اہلکاروں نے آج ملا برادر کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ ان اہلکاروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ملا برادر کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ طالبان کے اس رہنما کو کہاں حراست میں رکھا گیا تھا یا وہ اپنی رہائی کے بعد اس وقت کہاں ہے۔ کل جمعے کے روز پاکستانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ ملا برادر کو ہفتے کے روز اس لیے رہا کر دیا جائے گا کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں مدد کی جا سکے۔
کابل میں کرزئی حکومت کی قائم کردہ اعلیٰ افغان امن کونسل کے ایک رکن محمد اسماعیل قاسم یار نے ملا برادر کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو قوی امید ہے کہ ملا برادر کی رہائی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور قیام امن کے عمل میں اہم کردار ادا کرے گی۔
طالبان دور حکومت میں افغانستان کے وزیر خارجہ رہنے والے وکیل احمد متوکل نے بھی ملا برادر کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ملا برادر کے رہا کیے جانے کے بعد اس کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ متوکل نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’پاکستانی حکام کو ملا برادر کو یہ اجازت دینا ہو گی کہ وہ طالبان رہنماؤں کے ساتھ رابطہ کر سکیں اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں معاون ثابت ہو سکیں۔‘‘
ملا برادر سے پہلے پاکستان گزشتہ ایک سال کے دوران طالبان کے کم از کم تینتیس دیگر قیدیوں کو بھی رہا کر چکا ہے۔ لیکن افغان حکومت کی درخواست پر عمل میں آنے والی اس رہائی کے نتیجے میں امن بات چیت میں اب تک کس حد تک مدد مل سکی ہے، یہ بات قدرے غیر واضح ہے۔
ماضی میں افغان حکومت کا یہ مطالبہ بھی رہا ہے کہ اسلام آباد افغان طالبان سے تعلق رکھنے والے اپنے زیر حراست قیدیوں کو رہا کر کے کابل حکومت کے حوالے کرے۔ اس کے برعکس پاکستان نے آج تک ایسے کسی بھی قیدی کو رہا کر کے خود افغان حکومت کے حوالے نہیں کیا بلکہ انہیں پاکستان ہی میں رہا کر دیا گیا۔ آج ہفتے کے روز ملا برادر کی رہائی بھی اسی طرح کے حالات میں عمل میں آئی۔
ملا برادر کی رہائی کے بعد افغان وزارت خارجہ کے ترجمان موسیٰ زئی نے کہا۔ ’’اگر ملا برادر پاکستان ہی میں رہتا ہے، تو بھی افغان حکام کو اس تک رسائی لازماﹰ حاصل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ملا برادر کا کوئی ایسا محفوظ اور طے شدہ پتہ بھی ہونا چاہیے جو افغان حکام کے علم میں ہو۔ ‘‘