مچھر، ہوں تب بھی مصیبت نہ ہوں تب بھی
19 اپریل 2016مچھروں سے پیار کرنا تو دور کی بات انہیں برداشت کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مچھروں کی وجہ سے ہر سال لاکھوں انسان لقمہء اجل بن جاتے ہیں۔ خون چوسنے والا یہ طفیلیہ حیران کن، دلچسپ اور متنوع زندگی کا حامل ہے۔
مچھروں کی اسپیشیز کے ڈھانچے ایک سو ملین سال پرانے دریافت ہو چکے ہیں، یعنی زمین پر ڈائنوسارز کی موجودگی سے بھی قبل یہ کیڑا موجود تھا۔ ممکنہ طور پر زمین پر ایک بڑے سیارچے یا خلائی چٹان کے ٹکرانے کی وجہ سے زمین پر زیادہ تر زندگی ختم ہو گئی تھی اور ڈائناسارز بھی اسی واقعے کی وجہ سے صفحہء ہستی سے مٹ گئے تھے۔
دنیا میں پائے جانے والے حشرات میں مچھروں کو سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتے ہیں، جن میں خصوصی طور پر بچے ان کا نشانہ بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2015ء میں ملیریا وائرس کی حامل مچھروں کی قسم انوفیلیس گینَس چھ لاکھ انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنی۔ اس کے علاوہ مچھر کتوں اور دیگر جانوروں کی ہلاکتوں میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایڈیس گینَس نامی مچھر پیلا بخار مغربی نیل وائرس، ڈینگی، چیکونگُنیا اور زیکا وائرس پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق زیکا وائرس بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے والا یہ وائرس ان کے سر کے حجم کی کمی کا باعث بنتا ہے، جس کا نتیجہ مستقل ذہنی معذوری کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مچھروں کی مجموعی طور پر کوئی 35 سو اسپیشیز ہیں۔
مچھر انٹارکٹیکا کے علاوہ دنیا کے ہر براعظم میں پائے جاتے ہیں اور انسانوں سمیت دیگر جانوروں کی مدد سے ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی نہایت متحرک ہوتے ہیں۔ مچھروں کی کئی اقسام انسانوں کے ہم راہ دنیا کے ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچی ہیں اور حالیہ کچھ دہائیوں میں اس قسم کی تبدیلیٴ مقام میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
محققین کے مطابق پچھلے 25 برسوں میں ایڈیس البوپیکٹَس نامی مچھر یورپ کے 20 ممالک میں پھیلا اور اس کے پھیلاؤ میں زمینی درجہء حرارت میں اضافے نے اہم کردار ادا کیا۔
لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ مچھر اس وقت تک اپنی جگہ تبدیل نہیں کرتے، جب تک انہیں اس کی اشد ضرورت نہ ہو۔
ڈنمارک کی ارہَس یونیورسٹی سے منسلک ٹروپیکل بیماریوں کے امور کے پروفیسر اسکِلڈ پیٹرسن کہتے ہیں، ’’اگر آپ ایک ایسے مقام پر رہتے ہیں، جہاں مچھر موجود ہیں، تو یہ بات طے ہے کہ وہ خون کی تلاش میں دو کلومیٹر دور نہیں جائیں گے۔ وہ آپ سے کوئی دس میٹر دور جگہ کا انتخاب کریں گے۔‘‘
مچھروں کی حرکت کم فاصلے تک محدود ہوتی ہے، جو چند سو میٹر سے زیادہ کا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک مچھر کی زندگی عمومی طور پر دو ہفتوں کے قریب ہوتی ہے۔ مچھروں کے پر ایک سیکنڈ میں قریب پانچ سو مرتبہ پھڑپھڑاتے ہیں اور یہ مجموعی طور پر دو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔ صرف سالٹ مارش نامی مچھر خوراک کے حصول کے لیے ایک سو ستر کلومیٹر تک جا سکتا ہے۔
نر اور مادہ مچھروں میں فرق
دیگر جانوروں اور حشرات کے مقابلے میں مچھروں میں نر اور مادہ کے درمیان فرق غیرمعمولی ہے۔ صرف مادہ مچھر ہیں، جنہیں اپنے انڈوں کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے، جو خون سے پوری ہو سکتی ہے۔ مادہ مچھر ہی ہیں، جو کبھی کبھی اس عمل کے دوران وائرس کی حامل ہوں تو یہ وائرس انسانوں یا دیگر جانوروں میں منتقل ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں نر مچھر خالصتاﹰ سبزی خور ہوتے ہیں اور زیادہ تر پھولوں کے رس پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ یہ بات البتہ واضح نہیں کہ کیا یہی وجہ ان نر مچھروں کی مادہ مچھروں کے مقابلے میں نصف عمر کا باعث ہے یا عمر کی کمی کی وجوہات دیگر ہیں۔
فطری نظام کے لیے لازم
حشرات پر تحقیق کرنے والے انسٹیٹیوٹ فار ڈیویلپمنٹ سے وابستہ فابریس چندرے کے مطابق، ’’باقی کچھ بھی ہو۔ ایکوسسٹم یا فطری نظام میں مچھروں کے لیے جگہ موجود ہے۔‘‘
پانی میں رہنے والا یہ کیٹرا ایک طرف تو یک خلوی اینجائی کی خوراک ہے اور ساتھ ہی مچھلیوں کی پسندیدہ غذا بھی ہے۔ اس کے علاوہ پرندوں، چمگادڑوں اور مکڑیوں کے لیے بھی یہ خوراک بنتے ہیں۔ دو سے دس ملی گرام کا یہ کیڑا ظاہر ہے، ایک مکمل خوراک تو نہیں بن سکتا، مگر مچھروں کی تعداد بہت ہے، سو ان مچھر خوروں کو ایک خوراک میں کئی مچھر درکار ہوتے ہیں۔
نر مچھر پودوں کی پولینیشن یا بارآوری کے عمل میں بھی نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سن 1939 میں ڈی ڈی ٹی ایجاد کیا گیا، تو اس کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ دنیا سے مچھر ختم کر دیے جائیں۔ تاہم یہ طفیلیہ حالات سے مطابقت رکھنے اور ہر طرح کے زہر سے خود کو ہم آہنگ کر کے پہلے سے زیادہ قوت سے سامنے آتا ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہمیں پسند ہوں یا نہ ہوں، ہم برداشت کریں یا نہ کریں، نہ تو مچھروں کے ساتھ رہا جا سکتا ہے اور نہ ان کے بغیر۔