مہاجروں اور مجرموں میں تفریق کریں، یورپی کمیشن
15 نومبر 2015یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر نے یورپی یونین کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ پیرس حملوں میں ملوث افراد مجرم ہیں اس لیے وہ حملوں کے رد عمل کی بنیاد پر پناہ گزینوں کی درخواستیں مسترد نہ کریں۔
پولینڈ اور سلوواکیہ کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ پیرس حملوں کے بعد یورپی شہریوں میں مسلمان تارکین وطن کو پناہ دینے پر تشویش پائی جاتی ہے۔ ان ممالک کے بیانات کے بعد تارکین وطن کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں تقسیم کرنے کے معاہدے پر عمل درآمد مزید مشکل ہو گیا ہے۔
یُنکر نے ترکی میں جاری جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے حاشیے پر کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ہمیں یورپ میں آنے والے مختلف طرح کے لوگوں کو ایک ہی زمرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔‘‘
اب تک کی معلومات کے مطابق پیرس حملوں میں ملوث ایک حملہ آور کی شناخت شامی مہاجر کے طور پر ہوئی ہے۔ یہ حملہ آور تین اکتوبر کو یونانی جزیرے لیروس پہنچا تھا جہاں یورپی یونین کے قانون کے مطابق اس کی انگلیوں کے نشان لیے گئے تھے جس کے باعث اس کی شناخت ممکن ہوئی۔
یُنکر نے شامی مہاجرین کے روپ میں یورپ پہنچنے اور پھر پیرس پر حملہ کرنے والے اس شخص کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’پیرس حملوں میں ملوث یہ شخص ایک مجرم تھا، وہ مہاجر نہیں تھا اور نہ وہ یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے آیا تھا۔‘‘
پولینڈ کے نئے وزیر برائے یورپی یونین کونراڈ شیمانسکی نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ ان کے ملک میں اقتدار میں آنے والی نئی حکومت مہاجرین کی یورپی یونین میں تقسیم کے معاہدے کو تسلیم نہیں کرتی اور پولینڈ اس معاہدے کے تحت اپنے حصے کے مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ شیمانسکی کا کہنا تھا، ’’پیرس میں ہونے والے المناک حملوں کے تناظر میں ہمارے لیے سیاسی طور پر اس معاہدے پر عمل درامد ممکن نہیں رہا۔‘‘
یُنکر نے اس حوالے سے کہا، ’’وہ یورپی ممالک جو مہاجرین کی منتقلی کے حوالے سے ہمارے اختیار کیے گئے ایجنڈے سے متفق نہیں ہیں، میں انہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ سنجیدگی اختیار کریں اور اس بارے میں سطحی ردعمل پر مبنی بیانات دینے سے گریز کریں۔‘‘
ہفتے کے روز سلوواکیہ کے وزیر اعظم روبرٹ فٹسو نے بھی مہاجرین اور پیرس حملوں سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ہم پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ مہاجرین کے ساتھ بہت سے خطرات جڑے ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ اب کچھ لوگ اپنی آنکھیں کھولیں گے۔‘‘
لیکن یُنکر کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کی یورپی یونین کے رکن ممالک میں تقسیم کرنے کے لیے جو معاہدہ پہلے سے طے پا چکا ہے اس منصوبے میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یُنکر نے کہا، ’’مجھے معلوم ہے کہ اس میں دشواریاں ہیں، لیکن ہمیں اپنا عمومی طرز عمل بدلنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
پولینڈ کے سابق وزیراعظم یورپی رہنماؤں کی مہاجرت سے متعلق اجلاس کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹھائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کو جی ٹوئنٹی کے اراکین سے مطالبہ کریں کہ سب مل کر مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔
ٹسک نے کہا، ’’ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں سے یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ وہ مہاجرین کے بحران پر یورپ سے زیادہ کردار ادا کریں۔ لیکن ہم یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ کم زمہ داری کا مظاہرہ بھی نہ کریں۔ جی ٹوئنٹی کے تمام اراکین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بحران کے حوالے سے اپنا کردا ادا کریں۔ ہمارے تمام فیصلوں کی بنیاد یک جہتی پر مبنی ہونا چاہیے۔‘‘