’مہاجرين انضمام پر توجہ ديں، ورنہ نتائج بھگتيں‘
15 اپریل 2016نئے مجوزہ جرمن قوانين کے مطابق جرمنی ميں سياسی پناہ حاصل کرنے والے تارکين وطن اگر زبان سيکھنے، ملازمت تلاش کرنے اور معاشرے ميں ضم ہونے کے ليے مناسب اقدامات نہيں کرتے، تو انہيں فراہم کی جانے والی سہوليات ميں کمی کی جا سکتی ہے۔ چانسلر انگيلا ميرکل کی سياسی پارٹی کرسچن ڈيموکريٹک يونين (CDU) اور مخلوط سوشل ڈيموکريٹک پارٹی (SPD) کے مابين يہ اتفاق رائے بدھ اور جمعرات کی درميانی شب قريب سات گھنٹے طويل بحث و مباحثے کے بعد ہوا۔ برلن حکومت کئی ماہ سے ان قوانين کو حتمی شکل دينے کی کوششوں ميں ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کو طے کردہ قوانين ميں انسداد دہشت گردی کے ليے بھی مجوزہ اقدامات شامل ہيں۔
انضمام کے حوالے سے طے پانے والے مجوزہ قوانين کے تحت جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کے ليے متعدد تربيتی پروگراموں کا انتظام کيا جائے گا تاہم ان سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کی سياسی پناہ منسوخ بھی کی جا سکتی ہے۔ چانسلر ميرکل کے بقول جرمن زبان سکھانے کے علاوہ مہاجرين کو ايسے کورسز بھی کرائے جائيں گے جن کی مدد سے وہ جرمنی کی روزگار کی منڈی ميں ملازمت کے اہل ہو سکيں۔ نئے مجوزہ قوانين کے تحت وفاقی فنڈز کی مدد سے پناہ گزينوں کے ليے ملازمت کے تقريباً ايک لاکھ مواقع پيدا کيے جائيں گے۔ ملک بدری کے ليے مستحق قرار ديے جانے والے تارکين وطن کی ملک بدری پر اس وقت تک عملدرآمد نہيں کيا جائے گا، جب تک ان کا تربيتی پروگرام ختم نہيں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ، جو مہاجرين حکام کی جانب سے مہيا کردہ رہائش ترک کريں گے، انہيں نتائج بھگتنا پڑيں گے تاہم يہ واضح نہيں کہ يہ نتائج کيا ہوں گے۔ ميرکل نے کہا کہ نئے قوانين ميں ’ہر کسی کے ليے مواقع بھی ہيں اور ذمہ دارياں بھی‘۔ مجوزہ قوانين کی ملکی کابينہ سے منظوری چوبيس مئی کو ممکن ہے۔
انگيلا ميرکل نے اس موقع پر دارالحکومت برلن ميں کہا کہ يورپ کو درپيش مہاجرين کے اس تاريخی بحران ميں جرمنی کو دو چيلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا چيلنج يورپی اتحاديوں کے ساتھ مل کر تارکين وطن کی آمد کو منظم بنانا ہے اور اس سلسلے ميں پيش رفت واضح ہے۔ ذرائع ابلاغ سے بات چيت کرتے ہوئے ميرکل نے کہا کہ دوسرا چيلنج يہاں پہنچنے والے پناہ گزينوں کا اندراج اور پھر ان کا کامياب انضمام ہے۔ انہوں نے کہا، ’’انضمام کے حوالے سے ہمارے پاس قومی سطح کا باقاعدہ قانون ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی ميں ايسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے اور يہ ايک اہم اقدام ہے۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ سن 1960 کی دہائی کے آغاز ميں جرمنی نے ترک شہريوں کو ’گيسٹ ورکرز‘ يعنی مہمان ملازمين کے طور پر بلايا تھا۔ اس اقدام کا مقصد معاشی ترقی تھا۔ تاہم حکام ان ہزارہا تارکين وطن اور پھر ان کی آئندہ نسلوں کو انضمام يا شہريت کی جانب درست راہ دينے ميں ناکام رہے تھے۔