مہاجرين کا بحران : سخت تر قوانين پر قبل از وقت عملدرآمد
23 اکتوبر 2015نيوز ايجنسی روئٹرز کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ايک اعلٰی سرکاری اہلکار نے انکشاف کيا ہے کہ مہاجرين کی ريکارڈ تعداد ميں جرمنی آمد کے تناظر ميں سخت تر قوانين پر عملدرآمد يکم نومبر سے نہيں بلکہ اس ہفتے ہی سے ہو رہا ہے۔ چانسلر انگيلا ميرکل کے چيف آف اسٹاف پيٹر آلٹمائر کے بقول ان تازہ قوانين پر عمل در آمد يکم نومبر سے پہلے متوقع ہے۔ انہوں نے يہ بات جرمن نشرياتی ادارے ARD پر بات چيت کرتے ہوئے کہی۔
امکانات ہيں کہ رواں سال کے اختتام تک جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ يورپی يونين کے کسی بھی رکن ملک ميں پہنچنے والے پناہ گزينوں کی يہ سب سے زيادہ تعداد ہے۔ برلن حکومت مہاجرين کے اس غير متوقع بحران سے نمٹنے اور مستقبل ميں يہاں آنے والے پناہ گزينوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے کے مقصد سے يہ تازہ اقدامات کر رہی ہے۔
ميرکل کے چيف آف اسٹاف پيٹر آلمائر کے بقول نئے قوانين پر متوقع وقت سے پہلے عمل در آمد مثبت اشارہ ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’ہم اس سال سياسی پناہ کے ناکام درخواست دہندگان، جن کا يہاں کوئی کام نہيں، کی ملک بدری کے معاملے ميں زيادہ تيز اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہيں۔‘‘ آلٹمائر کو اسی ماہ چانسلر ميرکل نے مہاجرين سے متعلق معاملات کا نگران مقرر کيا تھا۔
جرمن پارليمان کے ايوان زيريں اور ايوان بالاں، دونوں ہی کی جانب سے ان تازہ قوانين کی منظوری پچھلے ہفتے ہی دے دی گئی تھی۔ سخت تر قوانين سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی اور جنوب مشرقی يورپی ممالک سے آنے والے مہاجرين کی جلد ملک بدری کے عمل کو تيز تر بنانے کے ليے ہيں۔ نئے قوانين کا مقصد يہ بھی ہے کہ شام، عراق اور افغانستان جيسے شورش زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے ’مستحق‘ تارکين وطن کے ليے يہاں سياسی پناہ پر توجہ دی جا سکے۔ قوانين کے تحت جن پناہ گزينوں کی سياسی پناہ کی درخواستيں مسترد ہو جائيں گی، ان کی کافی تيزی سے ملک بدری ممکن ہو گی۔ وفاقی اور رياستی حکام پہلے ہی سے ايسے افراد کی تفصيلی فہرستيں تيار کرنے کے عمل ميں مصروف ہيں تاکہ ملک بدری کا عمل قوانين کے نفاذ کے بعد آئندہ ہفتے ہی شروع ہو سکے۔
تازہ قوانين ميں سياسی پناہ کے ليے اہل قرار ديے جانے کے حوالے سے بھی سختی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جن افراد يا مہاجرين کو تاحال سياسی پناہ نہيں مل سکی، ان پر اخراجات ميں کمی بھی کی جائے گی۔ دوسری جانب جن افراد کے سياسی پناہ کے حصول کے امکانات زيادہ ہيں، ان کے انضمام اور انہيں اضافی بنيادی سہوليات کی فراہمی کو يقينی بنايا جائے گا۔
جرمن اخبار ’ڈی ويلٹ‘ کے مطابق سياسی پناہ کے ناکام درخواست دہندگان کی اکثريت رضاکارانہ طور پر واپس چلی جاتی ہے۔ رواں سال جنوری تا ستمبر ايسے 22,400 افراد رضاکارانہ بنيادوں پر اپنے آبائی ممالک چلے گئے جبکہ 11,500 کو زبردستی ملک بدر کرنا پڑا۔