1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرين کے حوالے سے مشترکہ موقف اختيار کرنے کی ضرورت ہے‘

عاصم سليم27 اپریل 2016

اقوام متحدہ کے نائب سيکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ يورپ کو يہ تسليم کرنا ہو گا کہ ہجرت اور معاشرے ميں تنوع لازمی ہيں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈی ڈبليو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔

https://p.dw.com/p/1IdMK
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

ڈی ڈبليو : يورپ کو مہاجرين کے بحران سے نمٹنے ميں مشکل پيش آ رہی ہے۔ کيا آپ کے خيال ميں يورپی ممالک تارکين وطن کو پناہ دينےکے معاملے ميں پيچھے ہيں اور مزيد افراد کو پناہ دی جا سکتی ہے؟

يان الائسن : ہم يہ جانتے ہی ہيں کہ يہ يورپی رياستوں کے ليے ايک بہت بڑا چيلنج ہے۔ ليکن ہميں يہ بھی سمجھنا ہو گا کہ يہ ايک عالمی سطح کا مسئلہ ہے۔ دنيا بھر ميں کئی ملين بے گھر افراد موجود ہيں۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ پناہ گزينوں اور تارکين وطن کی اکثريت ان ملکوں ميں مقيم ہيں جو خود معاشی اعتبار سے غريب ملک ہيں۔ ہم يہ اميد کرتے ہيں کہ ہجرت کے موضوع پر يورپی يونين کا زيادہ مشترکہ اور متحد موقف سامنے آئے۔ ہم يہ اميد بھی کرتے ہيں کہ ہجرت کے قانونی راستے اور ايک ايسا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے، جس کی مدد سے بحيرہ روم ميں ہلاکتوں کے سلسلے کو روکا جا سکے۔ ہم اپنی ايجنسی يو اين ايچ سی آر کے ذريعے مدد کر رہے ہيں ليکن دنيا کو يہ ياد دلانا بھی ضروری ہے کہ سن 1952 کی جنيوا کنونشن ميں انسانيت کی مدد کے حوالے سے بنيادی حقوق کی فراہمی لازمی ہے۔

ڈی ڈبليو : اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانےوالی ڈيل کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کيا ہے۔ يہ ڈيل تارکين وطن کو ترکی ہی ميں محدود رکھتی ہے۔ يورپی يونين نے اس تنقيد کے رد عمل ميں کيا موقف اختيار کيا؟ کيا آپ اس رد عمل سے مطمئن ہيں؟

يان الائسن : يہ واقعی ايک بہت ہی اہم معاہدہ ہے۔ اميد ہے کہ يہ مجموعی صورتحال ميں بہتری، انسانوں کی اسملنگ اور يورپ تک رسائی کے غير قانونی راستوں ميں کمی کا سبب بن سکے گا۔ ليکن يہ بھی لازمی ہے کہ اس بات کو نہ بھولا جائے کہ سياسی پناہ کے ليے درخواست دينے والے ہر شخص کی انفرادی سطح پر جانچ پڑتال اور اس کے کيس کا جائزہ ليا جانا ضروری ہے۔ ملک بدری کی صورت ميں بھی شرائط و ضوابط ضروری ہيں۔ ايسی چند رپورٹيں موصول ہوئی ہيں کہ ترکی سے شامی پناہ گزينوں کو واپس شام بھيجا جا رہا ہے۔ اگر اس بات ميں کوئی صداقت ہے، تو يہ قابل فکر ہے۔

اقوام متحدہ کے نائب سيکرٹری جنرل يان الائسن
اقوام متحدہ کے نائب سيکرٹری جنرل يان الائسنتصویر: picture alliance/AA/M. Kaynak

ڈی دبليو : اقوام متحدہ شام ميں قيام امن کے ليے ان دنوں امن مذاکرات کی ميزبانی کر رہا ہے۔ آپ يورپ سے اس امن عمل ميں کيا توقع رکھتے ہيں؟ کيا يورپی ممالک مزيد مدد کر سکتے ہيں؟

يان الائسن : ميرا خيال ہے کہ شام کے پڑوسی ممالک کو مدد کی سخت ضرورت ہے۔ ميں دو مرتبہ لبنان جا چکا ہوں۔ اس وقت اس ملک ميں بسنے والا ہر تيسرا شخص شامی باشندہ ہے۔ لبنان ميں اسکولوں، ہسپتالوں اور روزگار کی منڈی پر شديد دباؤ ہے۔ ميرے خيال ميں ترکی کی مدد کے علاوہ اردن اور لبنان کے ساتھ اظہار يکجہتی بھی لازمی ہے۔

ڈی ڈبليو : يورپ ميں مہاجرين کے بحران کے ساتھ ساتھ دائيں بازو کی عواميت پسندانہ تحريکوں کی مقبوليت ميں بھی اضافہ ريکارڈ کيا جا رہا ہے۔ کيا آپ يونين کی بقا کے حوالے سے فکرمند ہيں؟

يان الائسن : اب تک جو نظر آ رہا ہے نہ صرف يورپ بلکہ عالمی سطح پر، ميں اس کی وجہ سے پريشان ہوں۔ مہاجرين کو ايک مسئلے کے طور پر ديکھا جانا، نہ کہ ايک موقع کے طور پر، باعث فکر بات ہے۔ تارکين وطن اور پناہ گزينوں کے حوالے سے منفی نقطہ نظر پايا جاتا ہے، بالخصوص جب ان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا جائے۔ يہ ضروری ہے کہ مہاجرين کے حوالے سے ميانہ روی اختيار کرنے اور ان کی ساکھ کو مثبت بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس مسئلے يا بحران کا حل اسی صورت تلاش کر سکتے ہيں کہ جب ہم مل کر اس کا حل نکاليں اور تنوع کو تسليم کريں۔

پچھتر سالہ يان الائسن سن 2012 سے اقوام متحدہ کے نائب سيکرٹری جنرل کے طور پر کام کر رہے ہيں۔