’مہاجرين کے خلاف حملوں ميں شدت اور نئی عُمق‘
15 مئی 2016جرمنی ميں پناہ گزينوں کے خلاف ہونے والے حملوں ميں شدت اور نئی عُمق دیکھنے میں آ رہی ہے۔ يہ بات جرمنی کے جرائم کے وفاقی پوليس دفتر (BKA) کے سربراہ ہولگر مُنچ نے ايک انٹرويو ميں کہی ہے۔ جرمنی کے ’فُنکے ميڈيا گروپ‘ سے بات چيت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بالخصوص حملوں ميں تشدد کے عنصر ميں اضافہ حکام کے ليے باعث تشویش ہے۔ مُنچ نے بتايا کہ اس سال اب تک مہاجرين کی رہائش گاہوں کو نذر آتش کيے جانے کے پينتاليس واقعات رپورٹ کيے جا چکےہيں۔
اپنے انٹرويو ميں پوليس چيف نے بتايا کہ، ’’مہاجرين کے خلاف حملے کرنے والے زیادہ تر مرد حملہ آور ہوتے ہیں جن میں سے اسی فيصد کا تعلق اسی علاقے سے ہوتا ہے، جہاں وہ حملہ کرتے ہيں۔‘‘ ہولگر مُنچ نے کہا کہ گرچہ تاحال اس حوالے سے کوئی شواہد نہيں ملے ہيں کہ ايسے حملوں کی منصوبہ بندی، دائيں بازو کے انتہا پسند گروہوں کی جانب سے قومی سطح پر کی جا رہی ہے تاہم يہ خدشہ ضرور موجود ہے کہ کسی نہ کسی وقت ايسا ہو سکتا ہے۔ مُنچ کے بقول يہ خطرہ بھی حقيقی ہے کہ مہاجرين مخالف سوچ مستقبل ميں ’جرائم پيشہ اور دہشت گردانہ ڈھانچوں‘ کے قيام کا سبب بن سکتی ہے۔ وفاقی جرمن پوليس کے سربراہ کے مطابق پوليس اس ممکنہ خطرے کا سنجيدگیسے جائزہ لے رہی ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ مہاجرين کے بحران سے متعلق برلن حکومت کی مقابلتاً نرم پاليسی کے خلاف حاليہ کچھ ماہ ميں مخالفت بڑھ گئی ہے اور زيادہ منظم صورت ميں سامنے آ رہی ہے۔ اس کی ايک مثال جرمنی کے ليے متبادل (AfD) نامی جماعت اور اسلام مخالف تنظيم پيگيڈا کی عوامی سطح پر مقبوليت ميں اضافہ ہے۔ گزشتہ برس سياسی پناہ کے متلاشی ايک اعشارہ دو ملين مہاجرين جرمنی پہنچے۔
ہفتے کو چھپنے والے اپنے انٹرويو ميں جرائم کے انسداد کے وفاقی جرمن پوليس کے ادارے کے سربراہ ہولگر مُنچ نے ’انتہا پسند اسلام‘ کے پھيلاؤ کو روکنے کے ليے جرمنی ميں موجود مسلمان برادری پر بھی زور ديا کہ وہ اس سلسلے ميں زيادہ فعال ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ برادريوں کو يہ سمجھنے ميں مشکل پيش آ رہی ہے کہ ’انتہا پسند‘ ان کے مذہب کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ منچ کے بقول اماموں کو اس سلسلے ميں مزيد اقدامات کرنا ہوں گے۔ پوليس چيف اس بارے ميں بھی فکر مند ہيں کہ انتہا پسند سلفی مسلمان جرمنی ميں پناہ کے ليے آنے والے مہاجرين کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے انہيں اپنی جانب راغب کر سکتے ہيں۔