مہاجرین اور بےگھر ہونے والوں کی تعداد ساٹھ ملین تک پہنچ گئی
18 جون 2015اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے جنیوا میں جاری کردہ رپورٹ ’ورلڈ ایٹ وار‘ کے مطابق یہ تعداد 2013ء کے مقابلے میں 8.3 ملین زائد ہے۔ کسی ایک سال کے دوران اس تعداد میں یہ سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ اس تعداد میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے اور مہاجرت کر کے دیگر ملکوں میں پناہ لینے والے افراد بھی شامل ہیں۔
UNHCR کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء کے اختتام تک دنیا بھر میں 59.5 ملین افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور تھے جس کے پیچھے ’ایذا رسانی، تنازعات، تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جسیے عوامل‘ کارفرما رہے۔
یہ تعداد 2013ء میں 51.2 ملین تھی جبکہ ایک دہائی قبل ایسے افراد کی تعداد 37.5 ملین رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اگر ایسے تمام لوگوں کو ایک قوم تصور کر لیا جائے تو یہ دنیا کی 24 ویں سب سے بڑی قوم ہو گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بےگھر ہونے والوں میں سے 19.3 ملین مہاجرین ہیں۔ 1.8 ملین سیاسی پناہ کے متلاشی افراد جبکہ 38.2 ملین ایسے انسان جو اپنے گھر بار تو چھوڑنے پر مجبور ہوئے مگر انہوں نے اپنا وطن نہیں چھوڑا۔
UNHCR کی اس سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے مہاجرین کی تعداد میں سے نصف سے زائد بچے ہیں۔ 2009ء کے مقابلے میں ان کی تعداد میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ایسے افراد کی تعداد میں گزشتہ تین برسوں کے دوران 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جو داخلی طور پر بے گھر ہوئے۔
شامی مہاجرین کی تعداد افغان مہاجرین کی تعداد سے متجاوز
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2014ء پہلا سال تھا جب شامی مہاجرین کی تعداد افغان مہاجرین کی تعداد سے بھی تجاوز کر گئی۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 107 ممالک میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد 3.9 ملین تک پہنچ گئی ہے جبکہ افغانستان، جہاں گزشتہ 30 برس سے حالات ناسازگار ہیں، کے مہاجرین کی تعداد 2.6 ملین ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ تازہ اعداد وشمار کے مطابق ترکی میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد رواں برس 1.8 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوٹیریس کا استنبول میں سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پوری دنیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مہاجرین کی حفاظت کرے: ’’یہ اہم ہے کہ خلیجی ممالک کی طرح اور دنیا کے دیگر حصوں کی طرح، یورپی یونین بھی اپنی سرحدیں کھولے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ترکی کی طرف سے شامی مہاجرین کو دی جانے والی پناہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال ہونی چاہیے۔